باجماعت نماز تراویح میں ہونے والی کچھ غلطیوں کی طرف اشارہ
.
*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*
.
بصد احترام اور معذرت کے ساتھ...
تراویح کی نماز پڑھانے والے ائمہ کرام اور حفاظ صاحبان سے ہم مقتدیوں کی شکایت یہ ہےکہ ہم گنہگار مقتدی آپ کے پیجھے نہ ثناء اطمینان سے پڑھ پاتے ہیں اور نہ ہماری رکوع و سجود کی تسبیحات صحیح طریقے سے مکمل ہوپاتی ہیں۔
لہذا تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا رکیے.. تاکہ ہم ثناء پڑھ لیں ، اور رکوع و سجدے میں کچھ دیر ٹھہر جائیے تاکہ ہم مسنون تسبیحات کم از کم تین مرتبہ مکمل ادا کرسکیں..
.
ویسے الحمدللہ اس جانب توجہ دلاتے دلاتے بہت سی جگہوں پر تراویح کے دوران ان چیزوں کا خیال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے... لیکن اس تعلق سے بعض جگہوں پر ابھی بھی واقعی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے۔
.
فرض نمازوں کی امامت کرنے والوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے کہ نماز میں نمازی کے لیے امام تخفیف کرے، اور نماز کو ہلکی پھلکی پڑھائے، بیماروں ، کمزوروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا خیال کرے،
تراویح تو خیر نفلی نماز ہے، اس میں بندہ خود اپنی مرضی سے طویل قیام کرنے کے لئے آتا ہے، لیکن تراویح کی نماز میں افسوس کی بات تو یہ ہےکہ.. جہاں تخفیف (آسانی اور رعایت) ہونی چاہئے وہاں معاملہ لمبا اور طویل کردیا جاتا ہے، اور جہاں گنجائش نہیں ہے وہیں تخفیف کردی جاتی ہے۔
تخفیف زیادہ قرأت اور لمبی رکعت میں ہونی چاہئے.. مگر وہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھاجاتا ہے تاکہ جلد قرآن مکمل ہوجائے...!
.
لیکن نماز کے دوسرے ارکان و مسنون اعمال مکمل ہونے کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا ہے...؟؟ جماعت کے ساتھ اس نماز کو پڑھتے ہیں مگر جماعت کا مقصد ہی فوت ہورہا ہے۔ پھر یہ مذکورہ حدیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی بھی ہے کہ نمازی کے لیے اس تراویح کی نماز کو مشکل اور سخت بناکر پیش کیا جارہا ہے،
بلکہ دیکھنے میں تو یہ آتا ہے کہ کچھ لوگ مسجد کے طہارت خانے کی طرف ہوا خوری کررہے ہوتے ہیں، صفوں کے پیچھے لیٹے ہوئے ہوتے ہیں.. لیکن جیسے ہی امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں تو ایسے لوگ نماز میں شامل ہوتے ہیں، یہ عمل کسی بھی نمازی کے لیے مناسب نہیں ہے، ایسا کرنے والوں سے ادباً گزارش گزارش ہے کہ آپ کو امام صاحب کے لمبے قیام سے اکتاہٹ ہورہی ہو تو گھر جاکر آرام کریں، سحری سے ایک گھنٹہ پہلے جتنا لمبا قیام آسانی سے اور پوری دلجمعی کے ساتھ کرسکتے ہوں کرلیں، لیکن نماز باجماعت کے ساتھ ایسا مذاق یا ایسی حرکتیں باکل نہ کریں، اگرچہ باجماعت نفلی نماز ہی کیوں نہ ہو...
.
نفلی باجماعت نمازوں میں بھی تخفیف کی یہی ہے کہ قرآن نمازیوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پڑھا جائے، جتنی رغبت ہو مقتدیوں کی اتنی ہی تلاوت کی جائے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ آدھا یا پاؤ پارہ پورے بیس یا آٹھ رکعت میں پڑھے جائیں.. کم سے کم ایک یا سوا پارہ پڑھا جائے.. یہ رمضان کی نفلی نمازوں میں سب سی افضل نماز قرار دی گئی ہے. اس نماز کی خصوصیتوں میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قیام لمبا ہوتا ہے جیسا کہ مختلف صحیح احادیث سے ثابت ہے.
بعض حفاظ اور اسی طرح بعض مصلیان اس سنت کو نظر انداز کرکے تراویح میں بہت مختصر قراءت کرتے ہیں. اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ تراویح میں قرآن ختم کرنا کوئی ضروری یا سنت نہیں ہے. بسا اوقات ایک ربع (چوتھائی پارہ) میں پوری آٹھ یا بیس رکعت تراویح پڑھ لیتے ہیں.
جو لوگ ایسا فرماتے انھیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ سنت کیا ہے؟ تراویح، تہجد اور قیام اللیل میں اصل سنت لمبا قیام اور لمبی قراءت ہے.
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحا بہ کرام کو جو تین دن تراویح کی نماز پڑھائی اس میں پہلے دن ایک تہائی رات تک، دوسرے دن آدھی رات تک اور تیسرے دن ختم سحری کے وقت سے کچھ پہلے تک پڑھایا تھا.
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں تراویح کی باجماعت نماز اتنی لمبی اور قراءت اتنی طویل ہوتی کہ مقتدی حضرات کو لاٹھیوں پر ٹیک لگانے کی ضرورت پڑتی.
ان سب حقائق کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، محض اپنی سہولت کی خاطر صلاۃ تراویح کو اس قدر مختصر کردینا بھی خلاف سنت بھی ہے اور اسلاف کے عملی تواتر کے خلاف بھی ہے.
.
اچھا حفاظ کرام قرآن مکمل کرنے کی فکر میں نماز ادھوری پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں، یہ بھی واقعی افسوسناک امر ہے۔
مثلاً نماز میں ثناء پڑھنا مسنون ہے۔ رکوع اور سجود کی کم سے کم تسبیح تین بار پڑھنا یہ بھی مسنون ہے۔ تعدیلِ ارکان یعنی ہر رکن کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا.. قومہ یعنی سجدہ میں جانے سے قبل.. رکوع سے سیدھا اطمینان سے کھڑا ہونا.. اسی طرح جلسہ یعنی ایک سجدہ کر کے.. دوسرے سجدہ میں جانے سے قبل.. ٹھیک طرح بیٹھنا.. یہ سب واجبات میں سے ہیں
ایک سنت نماز تراویح کی ادائیگی کے لیے دوسری کئی واجبات اور سنتوں کو قربان کرنا..میرا مطلب صحیح ادا نہ کرنا کبھی جائز نہیں ہے۔
.
بعض اوقات اتنی حیرت و تعجب اور افسوس ہوتا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد مقتدی کو ثناء پڑھنے کا موقع نصیب نہیں ہورہا ہے وہاں حافظ صاحب (امام صاحب کو) اپنی ثناء پڑھکر پھر تعوذ اور بسم اللہ کا وقت بھی کیسے دستیاب ہورہا ہے؟ (بلکہ تکبیر تحریمہ.. اللہ اکبر کہہ کر الحمد شریف شروع کردیتے ہیں......!!)
.
جبکہ قرینہ اور قیاس تو صاف یہ کہتا ہے کہ بغیر تعوذ اور بسم اللہ کے قرأت ہورہی ہے، اس کی بھی حیثیت نماز میں سنت کی ہے، فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کو گنہ گار کہا گیا ہے اور اس کی نماز کو کراہت والی نماز سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہےکہ.. کچھ حفاظ سے جلدی پڑھنے کے چکر میں قرآن کے حروف کٹتے ہیں، یہ عمل اگر جان بوجھ کر ہورہا ہے تو نماز فاسد ہورہی ہے، بعض حفاظ تو تراویح کے نام پر قرآن کی قرآت کام ایسا مذاق بنادیتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔
(اور یہ عمل نیکی برباد.. گناہ لازم کا مصداق ہے)۔
.
فقہ کی کتابوں میں لکنت کی وجہ سے اگر حروف کٹتے ہوں تو گنجائش لکھی گئی ہے بصورت دیگر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرف بھی توجہ کی شدید ضرورت ہے۔ (اور حقیقت میں ان سب کی جوابدہی.. قرآن سنانے والے حافظ صاحب کے ذمہ ہے.. لہذا نمازیوں کو چاہیے کہ وہ تراویح کے امام صاحب کو اس بات کا پابند بنائیں وہ سنت و شریعت کے مطابق نماز پڑھائیں.. قومہ.. و جلسہ.. ثنا تعوذ و تسمیہ ٹھیک طریقے پر مکمل کریں.. التحیات کے بعد درود شریف اور دعائے ماثورہ پوری پڑھیں
.
”اس بات کو سمجھ لیں کہ قرآن مجید سیکھنے کی غرض سے پڑھا جائے تو کم مقدار میں اور بار بار پڑھنا چاہیے۔ اور اگر تدبر کی غرض سے پڑھا جائے تو آہستہ آہستہ اور ہر آیت پر رُک کر غور و فکر کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے۔ اور اگر زیادہ سے زیادہ تلاوت کر کے محض حصولِ اجر مقصد ہو تو جتنا زیادہ پڑھ سکتے ہیں پڑھیں، لیکن قرأت اور تجویز کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں، تراویح بیس ہوں کہ آٹھ رکعت، اس میں سوا سے ڈیڑھ پارہ پڑھنے کےلیے کم سے سوا سے ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہے، اس سے کم میں کوئی پڑھتا ہے تو سمجھ لو اس نے قرآن کا حق ادا نہیں کیا
.
قرآن مجید کی محض تلاوت بھی ایک عبادت ہے، اس کو حفظ کرنا اور اس کا علم حاصل کرنا ایک الگ عبادت ہے، اور اس پر غور و فکر کرنا ایک الگ عبادت ہے۔
تینوں مقاصد جمع ہوں تو سب سے بہتر ہے۔ جتنی کمی ہوتی جائے گی اجر کم ہوتا جائے گا۔ مگر قرآن سے ہر قسم کا تعلق خیر ہی خیر اور اجر ہے۔
.
نیز کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ محض تلاوت کا کوئی فائدہ نہیں، یکسر غلط اور جمیع امت کے فہم سے انحراف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پڑھ، سادہ لوح یا کند ذہن لوگوں کیلیے رحمت کا یہ عظیم دروازہ کھول رکھا ہے کہ وہ صرف تلاوت سے ہی اجر لے سکتے ہیں۔ ہاں مگر کوشش ہونی چاہیے کہ اسی پر اکتفا نہ ہو بلکہ معانی و مفہوم کو اساتذہ کے زیرنگرانی یا علماء سے رجوع ہوکر سیکھا اور سمجھا جائے۔ ورنہ یہ لوگ سورہ فرقان کی اس آیت *وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجورا* کی زد میں اسکتے ہیں.
.
اچھا ایک اور بات اختصار کے ساتھ عرض کرنا یہ ہےکہ، ہزار کوشش کے باوجود بھی مجھے اس بات کے تاریخی شواہد نہیں ملے کہ ہمارے ہندوستان میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر برق رفتاری سے تراویح میں قرآن پڑھنے کی رسم کب اور کہاں سے شروع ہوئ ؟
اور علماءکرام اور مفتیان عظام نے اس بات کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے کہ اتنی تیز رفتاری سے قرآن پڑھنے کے نقصانات کیا ہیں ہمارے مذہب مقدس میں اس نہج پر اس عظیم ترین کتاب کی تلاوت جائز بھی ہے کہ نہیں.....؟
.
آقاء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر یاد کرنے کے لئے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنا چاہا تو اللہ تبارک وتعالی نے اس سے بھی منع فرمادیا
*ان علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قرانہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ*
خود سوچئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مصلحتاً قرآن جلد جلد پڑھنے کی اجازت نہیں تو ایک عام شخص کو جسے مفہوم قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیون کر قرآن کی توہیں کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟
.
ادنی درجا میں قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر، صاف صاف ، اطمنان سے ، خشوع وخضوع اور تجاوید قواعد کے ساتھ پڑھا جائے ۔
کیا رمضان کے مبارک مہینے میں ہمارے حفاظ قرآن کا ادنی حق بھی ادا کر رہے ہیں ؟؟
جن حفاظ کو ایک رات میں کم از کم پانچ پارہ پڑھنا ہوتا ہے کبھی ان سے پوچھئے ! خشوع خضوع ، تضرع ، انکساری اور قواعد و تجاوید کا گذر بھی ان کے دلوں پر ہوتا ہے ؟
*فاعتبروا یا اولی الابصار.......!*
.
اب آخر میں یہ کہنا ہے کہ تراویح کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کو لے کر کسی سے بھی الجھے بغیر :
جو لوگ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں تو بیس رکعت ادا کیجیئے ۔۔
جو لوگ آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں تو آٹھ رکعت ادا کیجیئے ۔۔
جو لوگ بیس سے زائد یا چھتیس رکعت تراویح کے قائل ہیں تو چھتیس رکعت ادا کریں ۔۔
جہاں پر دس رکعت تراویح پڑھائی جارہی ہے، وہاں تو وہاں دس رکعات ادا کیجیئے ۔۔
الغرض رمضان میں قیام الیل کا وقت عشاء لے کر سحر تک ہے، آپ جو وقت موزوں سمجھتے ہیں اس وقت پر ادا کیجئے، جتنی رکعت پڑھنا چاہتے اتنی رکعت دو دو کرکے پڑھیں ۔۔
جن دنوں مسجد جانا ممکن نہ ہو تو گھر پر ادا کیجیئے ۔۔
مگر
کوشش کرکے ادا کیجیئے ۔۔
اللہ سے محبت و تعلق کی ایک بڑی نشانی ذوق عبادت ہے ۔۔
ماہ رمضان میں عبادت کا ذوق و شوق پیدا کیجیئے، ریس لگائے بناء اگر تراویح میں ختم قرآن کرسکتے ہیں ختم کیجئے، اگر یہ ممکن نہیں ہوپارہا تو جتنا ممکن ہوسکے اتنا کیجیئے ۔۔
ساتھ میں کچھ وقت روزانہ بلا ناغہ قرآن حکیم کو سمجھنے میں لگائیے، بھلے روزآنہ ایک صفحہ ہی کیوں نہ ہو ۔۔ رمضان کی فضیلت قرآن حکیم کے نزول سے منسلک ہے ۔۔ یہ ماہ دراصل ماہ قرآن ہے ۔۔ اپنا تعلق کتاب اللہ سے مضبوط تر کیجیئے ۔۔
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
No comments:
Post a Comment