.
*دعوت دین کے میدان میں توحید خالص کی اساسیت کا فقدان..!!*
.
یوں تو بہت سی دینی جماعتیں الگ الگ انداز میں دعوت دین کا کام بہت اچھے انداز میں کررہی ہیں.. لیکن کہیں نہ کہیں مجھے ایسا لگتا ہےکہ زیادہ تر دعوت دین کا کام کرنے والی دینی جماعتوں میں توحید کے اسباق صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر باقی رہ گئے ہیں یا پھر خانہ پری کی حثییت سے توحید بچی ہوئی ہے، عملی ترجیحات میں توحید پس منظر میں کہیں دور چلی جاچکی ہے..!!
کسی دینی جماعت میں شخصیات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے.. تو کسی کے یہاں اقتدار کے حصول اور سیاسی و سماجی تقاضوں کو اصل سمجھ لیا گیا ہے.. تو کہیں تزکیہ نفس کے نیچے توحید دب جاتی ہے تو کہیں توحید کی فلسفیانہ اور صوفیانہ تشریح میں شرک کا چور دروازہ کھول لیا گیا ہے..!!
جبکہ دعوت دین کے میدان میں توحید خالص کو اساسی اہمیت دینا ہی سارے انبیاۓ کرام کے بعثت مقصد اور انبیاء کرام کا اصل مشین تھا.. ہمارے یہاں کچھ لوگوں نے انبیاء کرام کے مشین کو ناسمجھی میں کچھ اور ہی سمجھ رکھا ہے..!!
جان اور اچھی طرح سے جان لیجئے گا کہ ہر قسم کی بربادیوں کے پیچھے توحید خالص کو اساسی اہمیت نہ دینا ہے... ہر طرح کی سربلندیوں کا محرک عظمت توحید ہی ہے،
.
یہ بات تو ہر عاقل بالغ مسلمان کو معلوم ہےکہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے ، جس میں سے دوسرا بنیادی رکن ہے نماز...
آپ لوگوں کو نماز کی دعوت دیجیے ، دنیا میں کسی کو بھی آپ سے اختلاف نہ ہوگا۔
تیسرا بنیادی رکن ہے روزہ.... روزہ رہنے پر سب کا اتفاق ہے ، روزہ کے فضائل و مسائل پر آپ تقریر کیجیے دنیا آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
چوتھا بنیادی رکن ہے زکوٰۃ : زکوٰۃ کی اہمیت و فرضیت پر سب کا اتفاق ہے۔
دین اسلام کا پانچواں رکن ہے حج... حج ایک ایسی عبادت ہے جسے استطاعت رکھنے والے سارے مسلمان انتہائی عقیدت ، احترام اور اخلاص سے کرتے ہیں اور جو مسلمان استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی حج کرنے خواہش کرنے کی تمنا اپنے دلوں میں بسائے ہوئے رہتے ہیں.. اور حج کے موضوعات پر لوگ تقاریر اور بیانات نہایت ہی والہانہ انداز سے سنتے رہتے ہیں
.
گویا کہ *ارکان اربعہ* کی اہمیت و فضیلت اور اس کے اسرار و رموز اور حکمت و فلسفے پر ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں اور ان چاروں ارکان کی چاہے آپ الگ الگ دعوت دیں یا ایک ساتھ دعوت دیں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔
اب بات کرتے ہیں دین اسلام کے سب سے اہم اور پہلے رکن توحید کی.. جان لو اور خوب جان لو کہ توحید کا موضوع اتنا اہم ہے کہ جس میں ذرا سی گڑ بڑی یا خلل کی وجہ سے آپ کی تمام عبادتیں اور ریاضتیں کسی کام کی نہیں رہیں گی، آپ کے سارے کے سارے اعمال رائیگاں چلے جائیں گے... اس لئے توحید کا صحیح علم اور اسکے تمام پہلوؤں کو جاننا ، سمجھنا اور نہ جاننے والوں کو سمجھانا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے..
دین اسلام میں عقیدہ توحید ایک ایسا موضوع ہے جس میں افہام تو تفہیم یا اختلافات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ ہی توحید کے باب میں کوئی ڈپلومیسی اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ..
.
توحید کی تین اقسام ہیں :
توحید ربوبیت ، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات.. آپ توحید ربوبیت کی بات کریں تو کسی کو اختلاف نہیں ہوگا ، کیونکہ توحید ربوبیت کے قائل تو عرب کے مشرکین اور کفار بھی تھے....
لیکن جیسے ہی آپ توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کو واضح کرتے ہوئے اپنی دعوت کا آغاز کریں گے غیر تو غیر ہیں ان سے کیا گلہ... اپنے ہی کلمہ گو وہ بھائی جنکی عبادتیں اور ریاضتیں شرکیہ افعال میں لتھڑی ہوئی ہیں جنکے افکار و عقائد میں شرک کی آمیزش ہو.. یہی لوگ آپ کی مخالفت میں کھڑے ہوجائیں گے اور آپ کو وہابی کا طعنہ دینا شروع کردینگے..
.
کیونکہ اگر آپ جس انداز سے توحید الوہیت اور توحید ربوبیت کو واضح کرتے ہوئے دعوت دیں گے تو اس کے تقاضوں پر بھی آپ کو گفتگو کرنا پڑے گی ، وحدۃ الوجود اور وحدت الشہود کے قائل گمراہ کن عقائد بھی زیر بحث آئیں گے ، قدیم و حادث پر بھی کلام کرنا پڑے گا ، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کی بحثوں کو بھی مدلل انداز سے پیش کرنا پڑے گا، کفریہ عقائد کا رد کرتے ہوئے اسکی وضاحت کرنا پڑے گی، اور شرک کو کھول کھول کر بیان کرنا پڑے گا ، شرکیہ اعمال میں لتھڑے بدعات و خرافات پر کھل کر نقد و تبصرہ و تردید کرنا پڑے گا۔ اور اسکی زد میں انکے اپنے اکابرین کے شرکیہ اعمال ، افکار اور اقوال بھی آئیں گے
.
الغرض آپ اگر توحید کی دعوت نہیں بلکہ توحید کے منافی ہر عقیدے اور فکر اور ہر سوچ ضرب لگاتے ہوئے *نہی عن المنکر* سے اپنی دعوت و تبلیغ کا آغاز کریں گے تو پھول نہیں پتھر برسے گا ، گلاب نہیں گالیوں سے تواضع کی جائے گی ، اپنوں ہی کی طرف سے سازشیں ہوں گی ، ہر طرف مخالفت کا طوفان بدتمیزی بپا ہوگا ، ہر محلہ ہر گاؤں اور ہر بستی ہل جائے گی۔ سیاہ اور سفید میں فرق واضح ہوجائے گا ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا ، باطل چھٹ جائے گا اور حق ایک طرف واضح ہوجائے گا۔
.
اس لیے جو دینی جماعت توحید کو دعوت کی اساس اور بنیاد بناتی ہیں تو لوگ انہیں فتنہ پرور اور اختلاف پیدا کرنے والے یا شدت پسندی کا خطاب دیتے ہیں، حالانکہ یہ اختلاف اور فتنہ نہیں ہے بلکہ یہ دعوت توحید کا اپنا اثر ہے کہ وہ سیاہ و سفید اور حق و باطل کو واضح کر دیتی ہے.
اس لیے لوگ چاہتے ہیں سارے لوگ صرف *"ارکان اربعہ"* کا فلسفہ اور اس کی دعوت پیش کریں، جب کہ دعوت مکمل *"ارکان خمسہ"* کی دی جائے گی جس میں اساس بنیاد اسلام کے پہلے رکن توحید کو دی جائے گی..
.
یہی دعوت کی اصل بنیاد بھی ہے اور اصل محور بھی. اور یہ جب مکمل طور پر پیش کی جائے گی تو طوفان بھی آئے گا، آندھیاں بھی چلیں گی، خس و خاشاک اور گرد و غبار بھی اڑیں گے لیکن بارش توحید سے ساری چیزیں دھل جائیں گی اور موسم و مطلع بالکل صاف اور سہانا ہوجائے گا، اس لیے دعوت توحید کو پیش کرنے میں گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ عزیمتِ دعوت اختیار کرنی چاہیے. دعوت کی یہی ترتیب اصل بھی ہے اور انبیاء کرام کا اصل مشین بھی یہی ہے..
.
بہت سے دین کا کام کرنے والے داعی حضراتِ اور مصلحین توحید کی دعوت کھل کر نہیں دیتے بلکہ اپنی بات مصلحت کے رومال میں لپیٹ کر دیتے ہیں، وہ لوگوں کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ کون کون سے چیزیں شرک ہیں اور کون کون سی چیزیں بدعت ہیں.. جس کی وجہ سے لوگ ان کی دعوت سے توحید و سنت اور شرک و بدعت میں تمیز نہیں کر پاتے..
یاد رکھیں اور خوب یاد رکھیں جہاں توحید کے بنیادی اسباق روپوش ہوں وہاں محض ’دینی مظاہر‘ سے دھوکہ کھانا بدترین گمراہ کن ہے۔
.
شرک اتنا بڑا گناہ ہے اور اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ رب العزت سورة الأنعام کی آیت نمبر ٨٨ میں اٹھارا انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ :
*وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا لَحَبِطَ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ..!!*
ترجمہ :اور اگر بالفرض یہ (انبیاء) حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے..
اللہ رب العزت نے سورہ نساء میں فرماتے ہیں کہ : "بیشک اللہ تعالی شرک معاف نہیں کرے گا اس کے سوا جو چاہے گا جس کے لیۓ چاہے گا معاف کردے گا۔"
شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالی اس کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور جو شخص اس حال میں مر گیا کہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہو "اللہ نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔"
( سورہ مائدہ 72)
لہذا اس انجام بد سے بچنے کے لیۓ ضروری ہے کہ انسان کو توحید اور شرک کی پہچان ہو.. لیکن افسوس صد افسوس آج کل ہمارے معاشرے میں شرکیہ اعمال افعال اور عقائد اتنے عام ہو گئے ہیں کہ لوگ شرک ہی کو دین سمجھ بیٹھے ہیں۔
.
ہندوستان میں اہل توحید کی دعوت توحید وسنت کو سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے اس گروہ نے دیا ہے جو گروہ خود کو مسلمان اور پکا اہلسنت کہتا ہے اور لوگوں سے قبروں کی پوجا اور شرک و بدعت کے تمام کام کرواتا ہے اور اہل توحید کے خلاف مختلف قسم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے..
میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسے اپنے آپ کو اہل سنت کہتے ہیں جہاں پر ہم شرک کے خلاف بول ہی نہیں سکتے۔ ’’شرک فی العبادہ‘‘ کو ہم نے بڑی ایک معمولی چیز سمجھ لیا ہے کیونکہ اس سے تفرقہ پھیلتا ہے یا پھر لوگ بِدک جاتے ہیں..
ارے بھیا ابولہب کی اولاد میں سے پانچ لوگوں نے اسلام قبول کیا... مردوں میں عتبہ اور معتب اور (خواتین میں سے درۃ، خالدہ اور عزہ) یہ سبھی (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ) کی تلاوت کرتے تھے؛ توحید کے باب میں کوئی ڈپلومیسی نہیں اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ..
.
اچھا ہمارے یہاں کچھ لوگ صرف *امر بالمعروف* کی ک موافقت میں بولنے اور لکھنے لگے ہیں، اور لوگوں کو اسکی ترغیب بھی دیتے ہیں.. لیکن اگر آپ توحید کے منافی امور پر ردود لکھنا اور بولنا یعنی *نہی عن المنکر* شروع کرتے ہیں لوگ کہنے لگیں گے یار کوئی مثبت کام کرو..!!
جبکہ اللہ رب العزت نے *نہی عن المنکر* کو "دعوت الی الخیر" کا ایک رکن بنایا ہے۔
*"وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ".*
(سورة آل عمران - الآية ١٠٤)
اس آیت کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہےکہ امر با المعروف کے ساتھ ساتھ نہی عن المنکر کا تقاضہ بھی پورا کرے.. اور انسان کے سلیم المنہج و فطرت ہونے کی علامت یہ ہےکہ وہ توحید کے منافی ہر شرکیہ اعمال افعال اور افکار کا رد کرے.. اور سنت کے منافی ہر بدعت پر رد کرنے والا ہو..
اگر آپ کی دعوت سے ہر مشرک اور بدعتی سبھی خوش ہیں تو آپ کو اپنے علم اور طریقے دعوت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے
یہ کیسی دین کی دعوت ہےکہ آپ امر بالمعروف تو پڑھائیں اور نہی عن المنکر سے غافل رکھیں..؟؟ کیا ایسے دین کا تصور پیش کرنے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے..؟؟
.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
اصل دین امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے..!!
اور سب سے بڑا معروف توحید ہے..!!
جبکہ سب سے بڑا منکر شرک ہے..!!
(مجموع الفتاوی :6/ 293)
یہ بھی یاد رکھیں کہ نہی عن المنکر کے مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی شخص شرک اور بدعت میں مبتلا ہو تو، فوراً اس پر ردود کے کہلاڑوں سے وار کرتے ہوئے فتویٰ بازی شروع کردیں...
نہیں بلکہ ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ احسن طریقے سے اس کی اصلاح کی کوشش جائے.. پھر نہی عن المنکر کے تقاضوں کو پورا کیا جائے.
.
معاف کیجئے گا اگر بات لمبی ہوگئی تو.. آپ چاہے جس دینی جماعت وابستہ ہوکر دین کا کام کررہے ہیں اپنا کام جاری رکھیں.. لیکن مخلص ہوکر قران اور حدیث کا فہم سلف کی روشنی میں مطالعہ کریں اور شرک کی قباحت کو سمجھتے ہوۓ اس میں ملوث ہمارے کلمہ گو بھائیوں کو بچانے کی کوشش کریں اور پھر توحید کا فہم سجھنے کے بعد اپنی زندگی توحید پر گزاریں..
اللہ تعالی ہم سب کو اسکی توفیق دے اور توفیق دینے والا تو صرف اللہ ہے۔
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
No comments:
Post a Comment