.
قربانی کے بجائے ضرورتمندوں کی مالی امداد کی منطق جواب
جیسے ہی عیدالاضحیٰ یعنی قربانی کے ایام قریب آتے ہیں، غریبوں کے بہت سے فرضی خیرخواہ (لبرل، سیکولر، روشن خیال، آزاد خیال اور دین بیزار ) والے مینڈک اپنے اپنے کنوؤں سے نکل کر ٹرانا شروع ہوجاتے ہیں
اور جیسے ہی قربانی کے دن گزر جاتے ہیں تو پھر ان فرضی مسیحاؤں کو غریب اور ضرورتمند لوگ کبھی یاد نہیں آتے... نہ کسی دنیاوی کام میں اسراف کرتے وقت ان کو غریب یاد آتے ہیں نہ ہی اپنے بچوں کی شادی دھوم دھام سے کرتے وقت ان کو غریب لوگ یاد آتے ہیں
.
ان کا مقصد غریبوں کی حمایت نہیں بلکہ شعائر اسلام کی تحقیر ہوتا ہے.
ان کے دلوں میں شعائر اسلام کا بغض اور نفرت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے.
ایسے شکوک و شبہات پیدا کرنے والے لوگوں سے بچیے اور اللہ کے دیے ہوئے حلال مال میں سے الله کی راہ میں جانور ذبح کیجیے.
قربانی ایک عظیم عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے. اسی میں خیر اور بھلائی ھے۔
.
شیطان نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی تین بار روکا تھا قربانی سے۔
آج بھی شیطان ایسے ہی لبرل، دین بیزار اور روشن خیال لوگوں کے روپ میں آکر ہمارے دلوں میں وسوسے پیدا کرکے ہمیں قربانی جیسے عظیم عمل سے بار بار روکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے
.
پہلے کہتا ہے قربانی فرض تھوڑی ہے۔
.
جب نہ مانو تو کہتا ہے اس سے بہتر ہے کسی غریب کے کام آ جاؤ۔ کسی مفلس لڑکی کا جہیز بنا دو، کسی کو واٹر کولر لگوا دو، کسی کے گرمی سے روتے بچوں کو جنریٹر دلوا دو۔۔۔۔
.
پھر کہتا ہے کہ لال گوشت زیادہ کھالو گے تو تمہارے جسم میں کولاسٹرل لیول بڑھ جائے گا، مجھے تمہاری صحت کی فکر ہے بس اور کچھ نہیں....
.
پھر بھی نہ مانو تو کہتا ہے اچھا تمہاری مرضی۔۔۔لیکن دھیان سے رہنا، آجکل جانوروں میں فلاں فلاں متعدی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہ...
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال گزارے اور ہر سال آپ نے قربانی کی حتی کہ ایک سال سو اونٹ قربان کیے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دس سالوں میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اس سال ہم قربانیاں نہیں کریں گے بلکہ قربانی کا پیسہ غریب اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے میں لگائیں گے...!!
.
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا.... مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، اللہ رب العزت کو یہ گوارا نہ ہوا..... اِس لیے حکم دِیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردِیا۔ اِس وَاقعہ (ذبح اِسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد اللہ کے فرمان کے آگے اپنی جان کو پیش کرنا ہے....
.
چنانچہ اس سے اِنسان میں جاں نثارِی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی اس قربانی کی رُوح ہے... تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی..؟؟؟ کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لیے کوئی دِن مقرر نہیں؛ مگر اس کے لیے ایک خاص دِن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحی رکھا گیا ہے
.
ایک اللہ کا سچا تابعدار بندہ ، اسی بات سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے اللہ کی راہ میں اپنی مرضی سے کچھ دینا ہے یا اللہ کی مرضی سے..؟؟
اللہ ان ایام میں قربانی مانگتا ہے...
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
عید الاضحیٰ کے دن اگر کروڑوں روپے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردیئے جائیں تو ، یہ عمل قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ اس دن صرف قربانی کا ہی حکم ہے
.
واضح رہے عبادات میں زبردستی کی منطق جھاڑنا جائز بھی نہیں ۔ عبادت میں اصل یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہو ، یہاں اجتہاد یا قیاس کرنے کی کوئی گنجائش نہیں.. جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرامین موجود ہوں...
*"صلوا كما رأيتموني أصلي "*
جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے ویسے نماز پڑھو ۔
.
*"خذوا عني مناسككم"*
مجھ سے حج کے احکام، طریقے سیکھ لو ۔
اور یہ مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا دیا ہوا ہے
*"ما أتاكم الرسول فخذوه و ما نهاكم عنه فانتهوا"*
.
قربانی ہم اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر کرتے ہیں، منطق نہیں ڈھونڈتے لیکن اگر منطق بھی ڈھونڈیں تو اس عبادت میں سماج کی بھی بہتری ہی ہے ۔ غریبوں کا فایدہ ہی ہے اور سماجی روابط کی مضبوطی ہی ہے ۔ آپ کو بندوں کی مدد کرنی ہے تو قربانی چھوڑنے کی کیا ضرورت پڑ گئی بھائی؟؟؟
.
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کب غریب اور ضرورتمندوں کی مدد سے منع کیا ہے ؟ دین اسلام نے تو ہمیں قدم قدم پر اس پر ابھارا ہے ۔ مساجد میں باجماعت نماز پڑھنے جائیں تو لوگوں کی خبر گیری کریں ،
قربانی کریں تو غریبوں کا حصہ بھی رکھیں،
حج میں باہمی تعاون سیکھیں ، صدقے خیرات کریں ، بھائیوں کی مدد کریں ، اللہ آپ کی مدد کرے گا ۔
.
جس دین نے اللہ پاک کی خالص عبادتوں میں بھی بندوں کے ساتھ بھلائی کا زاویہ روشن رکھا ہو ، اس دین کی عبادت کو بندوں کی بھلائی کے نام پر بدلنے یا غیر ضروری قرار دینے کی کوشش کیسے روا ہو سکتی ہے ؟
ان دین بیزار، لبرل اور روشن خیال فرضی مفکرین کو بندوں سے محبت نہیں ہے بلکہ، اللہ کے دین سے نفرت ہے ورنہ اللہ والے تو اپنی عبادات میں بھی بندوں کی مدد کے زاویے دیکھتے ہیں!!!!
.
قربانی جیسی عظیم عبادت کے مقابلے میں، غریبوں کی امداد کی منطق جھاڑنے والے چاہتے ہیں کہ قربانی کی سنت ختم ہو جائے اور اس لیے ختم ہو تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور ذوق عبادت کمزور ہو ۔۔۔ نہ ان کو جانوروں سے محبت ہے اور نہ ہی غریبوں سے کوئی ہمدردی ۔۔
ان کا مقصد تو لوگوں کو دین سے دور کر کے الحاد تک لے جانا ہے ۔
.
ایسے ہی کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو سوشل میڈیا پر بڑے زور و شور سے واویلا کرتے رہتے ہیں کہ، کعبہ کے گرد گھومنے سے پہلے کسی غریب کے گھر گھوم آؤ۔۔۔
.
مسجد کو قالین نہیں کسی بھوکے کو روٹی دو۔۔۔
.
حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے کسی نادار کی بیٹی کی رخصتی کا خرچہ اٹھاؤ۔۔۔
.
مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے افضل ہے کہ کسی بیوہ کے گھر آٹے کی بوری دے آؤ۔۔۔
.
یاد رکھیں۔۔۔
.
دو نیک اعمال کو اس طرح تقابل میں پیش کرنا کوئی دینی خدمت یا انسانی ہمدردی نہیں بلکہ عین جہالت ہے۔
اگر تقابل ہی کرنا ہے تو دین اور دنیا کا کرو اور یوں کہو :
پندرہ بیس ﻻکھ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔
.
پچاس ساٹھ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔
.
گھر ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﻮﺍئو ﺟﺐ گرمی میں بغیر بجلی کے سونے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔
.
ﺑﺮﺍﻧﮉﮈ ﮐﭙﮍﮮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺧﺮﯾﺪو ﺟﺐ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﭘﮭﭩﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔
.
یہ کروڑوں کی گاڑیاں ، لاکھوں کے موبائل فونز اور ہزاروں کے کھلونے خریدتے وقت ان دانشوروں کو زحمت گوارا کیوں نہیں ہوتی۔۔۔؟
.
آخر یہ چِڑ کعبہ، مسجد، حج و عمرہ اور دیگر دینی امور سے ہی کیوں ہے۔۔۔؟
.
ان ضروریات کا فرائض سے موازنہ کر کے فرائض سے غفلت کا درس دینے والے جب.... ہزاروں آرام دہ اشیاء خریدتے وقت ان کو غریب کی بن بیاہی بیٹیاں نظر کیوں نہیں آتی ہیں؟
.
یہ اللہ کا دین ہے اور نبی اکرم کا طریقہ ہے جو کسی دین بیزار، لبرل اور روشن خیال کے منطق کا محتاج نہیں... جیسے چاہیں اس کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں۔ کسی کی مدد کرنی ہے تو سارا سال پڑا ہوا ہے حج اور قربانی کے وقت ہی ڈرامہ بازی نہ کریں،
.
اچھا کچھ سادہ لوح دیندار لوگ ان لبریز کی باتوں میں اکر کہتے ہیں کہ آپ ضرورتمندوں کی مالی امداد کرنا چاہتے مالی امداد کریں... آپ قربانی کرنا چاہتے ہیں قربانی کریں...
اللہ پیٹ کی روٹیاں اور ماتھے کی محراب نہیں دیکھتا، وہ صرف نیتوں سے نتائج نکال لیتا ہے.
ان سادہ لوح بھائیوں سے کہنا ہے کہ... نیت کا صحیح ہونا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ کا کیا گیا عمل بھی صحیح ہو، نیت کے ساتھ ساتھ آپ کا طریقہ بھی صحیح ہونا چاہئے' جو سنت اور شریعت کے طریقے کے مطابق ہو.
دین کی راہ پر چلنے میں لوگوں کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، لیکن جذبات کو اسلام کا پابند بنائے رکھنا ہی اصل اسلام ہے.
.
قربانی شروع سے تمام امتوں میں بطور عبادت رائج رہی، پہلے اسے خود کھانے کی اجازت نہیں تھی بلکہ اسے آسمانی آگ اکر کھالیتی تھی یا پھر اسے جلا دیا جاتا تھا. لیکن اللہ رب العزت نے سورة الحج، آیت نمبر اٹھائیس اور چھتیس...
*فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ*
*فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ*
میں ہمیں اس بات کی اجازت دی ہے کہ خود بھی کھائیں اور فقراء کو بھی کھلائیں.
یعنی قربانی خود کھانا، رشتہ داروں اور دوستوں کو کھلانا اور غریبوں کو کھلانا مانگنے والوں کو کھلانا نا مانگنے والوں کو کھلانا... تقربِ الٰہی و عبادت ہے۔
.
ایک روایت میں آتا ہے کہ" قربانی اللہ کی طرف سے بندوں کی ضیافت ہے." ... اللہ کہے کہ تم میرے دئیے ہوئے مال سے میری طرف سے قربانی کر کے اپنی اور میرے دوسرے بندوں کی ضیافت کرو تو کوئی بد نصیب ہی ہوگا جو اس سے پہلو تہی کر جائے
جس طرح خاص علاقوں کی خاص سوغاتیں ہوتی ہیں جنھیں نظر انداز کرنا بد ذوقی کہلاتا ہے اسی طرح کا معاملہ نیکیوں اور عبادات کا بھی ہے. ذی الحجہ کے ان ایام میں قربانی اللہ کی محبوبیت کا ذریعہ ہے
سو ان ایام میں ڈاکٹروں کی بالکل نہ سنیئے کہ لال گوشت مضر صحت ہے، یا پھر کولاسٹرل لیول بڑھ جائے گا وغیرہ وغیرہ...
.
اس عید پر خوب رج کر گوشت کھایئے ! اور اپنوں کو کھلائیے... اس لال گوشت میں وٹامن ڈی بھرپور مقدار میں ہوتا ہے... جو آپ کے امیونیٹی پاور کو بڑھانے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا.... کورونا یا فلو جیسی وباؤں میں یہ وٹامن ڈی دفاعی کام کرے گا...
اگر ان ایام میں یہ قربانی کا گوشت کچھ زیادہ ہی کھالیں تو تب بھی.... ان دو نمبر دوائیوں سے کم ہی نقصان پہنچائے گا... جو ڈاکٹر حضرات کمیشن کی خاطر ہمیں سارا سال لکھ لکھ کر دیتے ہیں
.
صحیحین میں سیدنا عمر رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا عمر سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یہودیوں پرنازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟
اس نے کہا :
*اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا*
المائدة
.
ترجمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ۔
.
توعمر رضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
ہمیں اس دن اور جگہ کا بھی علم ہے ، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئ وہ جمعہ کا دن تھا اور نبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔
عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید کا دن ہے :
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یوم عرفہ اور یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
.
الداعی : ایم ایس اکمل
.
3 comments:
You are right but no body can agree if you .
In my school poor students are studying in Urdu medium they can't purchase note books and stationary please help them .
ماشاءاللہ
برادرم ایم۔ایس اکمل، کورٹلہ کا مضمون انتہائی دلچسپ معلوماتی اور متاثرکن ہے۔اللہ تعالٰی انھیں جزائے خیر سے نوازے۔
Post a Comment