عبادت گزاروں میں حسد کی بیماری

.
پارساؤں (عبادت گزاروں) میں حسد کی بیماری 



ایک بہت ہی نیک اور عبادت گزار شخص تھا جو دن رات اللہ کی عبادت کرتا رہتا تھا۔ فرض نماز تو دور کی بات ہے، اس کی زندگی میں کبھی کوئی نفلی نماز بھی چھوٹتی تھی.. ہمیشہ اسکی زبان اللہ کے ذکر سے تر رہتی تھی، رات کے آخری پہر میں آٹھ کر تہجد میں لمبے لمبے قیام اور سجدوں لمبی لمبی دعائیں کرتا رہتا تھا... اچھے اخلاق کا مالک اور ملنسار بندہ تھا... ایک دن اس کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ اللہ تمہاری عبادات سے بہت خوش ہے، آج تم جو بھی مانگو گے پورا ہو گا۔
اس شخص نے کہا کہ مجھے ایسی دیگ چاہیئے جس میں روزانہ قسم قسم کے کھانے پک کر تیار ہوں.... اور اس دیگ میں کھانا کبھی ختم نہ ہو۔ فرشتے نے پوچھا عجیب خواہش ہے...!
تو بندے نے جواب دیا، کورونا کے بعد سے مہنگائی بےتحاشا بڑھ رہی ہیں، روز مرہ کی کھانے پینے چیزیں آئے دن مہنگی ہوتی جارہی ہیں، لوگوں کے آمدنی کے ذرائع محدود ہوتے جا رہے ہیں..، تو ان حالات میں، میں اس نہ ختم ہونے والے کھانے دیگ کے ذریعے کھانے کا لنگر لگانا چاہوں گا ...
فرشتے نے ہاتھ ہلایا اور اسی وقت دیگ وہاں پہنچ گئی۔
نیک آدمی تھا، حساس اور لوگوں کا درد سمجھنے والا بندہ تھا... اس نے مفت کا کھانے کا لنگر کھول دیا، اور چوبیس گھنٹے کھانا تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اس کھانے کی دیگ میں روزانہ ہر قسم کا بن کر تیار ہوجاتا تھا.. یہ دیکھ کر کھانا کھانے والوں کی تعداد بڑھنے لگی، ایک ہی ماہ میں روزانہ ہزاروں لوگ اس کے دسترخوان سے فیضیاب ہونے لگے۔ لوگ اس کے دسترخوان کھانا کھاتے اور بھر بھر کر اپنے گھر والوں کو لے جانے لگے.. ساتھ میں اسکو دل سے دعائیں دیتے جاتے تھے... 
اسی علاقے میں اس جیسا ایک اور نیک شخص رہتا تھا، جب اسے تمام ماجرے کا پتا چلا تو اس نے بھی عبادتیں بڑھا دیں اور گڑگڑا کر دعائیں مانگنا شروع کر دیں، 
وہی فرشتہ ایک دن اس کے پاس آیا اور کہا تم آج جو بھی مانگو گے، وہ خواہش پوری کر دی جائے گی۔ کیا تمہیں بھی ویسی ہی دیگ چاہئے...؟ جسکی خواہش میں عبادتیں اور دعائیں کرتے جارہے تھے... 
اس شخص نے جواب دیا کہ نہیں۔ 
تو فرشتے پوچھا تو پھر کیا چاہئے..؟ 
تو اس بندے نے کہا تم نے میری ایک خواہش پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے...،
فرشتے نے کہا.... ہاں ہاں کیوں نہیں... 
مانگو تو صحیح، آپ کی خواہش پوری کردی جائے گی.. 
تو اس بندے نے جواب دیا کہ.... 
*میری دلی خواہش یہ ہے کہ اس نیک بندے سے وہ نہ ختم ہونے والی کھانے کی دیگ واپس لے لی جائے، بس اور کچھ نہیں....!!*
فرشتہ شاکڈ حاسد راکڈ...! 
😎🙏😇 
اس لیے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ، جاہل عابد اور فاجر عالم کی صحبت سے بچو، کیونکہ ان دونوں کا فتنہ ہر فتنہ گر کے فتنے کا سبب اور اس سے بڑھ کر ہے
(اخلاق العلماء للآجری ٦٣) 
بندہ چاہے جتنا بھی پارسا ہو، وہ حسد جیسی لعنت سے بچ نہیں سکتا... اس لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ، حسد سے کوئی شخص محفوظ نہیں، البتّہ کمینہ شخص اِس کا اظہار کر دیتا ہے اور کریم انسان اِسے ظاہر نہیں ہونے دیتا!" 
(مجموع الفتاوى : ١٠ / ١٢٤)
برے بندے تو برے  ہیں ہی، ان سے کیا گلہ، مسئلہ تو ان نیکو کاروں اور عبادت گزاروں سے ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں حسد میں مبتلا ہے.. یقین جانیے حسد وہ بدترین صفت ہے جس میں بندہ کسی پر نازل کردہ نعمت کو چھن جانے کی خواہش کرتا ہے۔ یہ انسانی جسم و قلب کو ہلاک کرنے والی باطنی مرض ہے۔ انسانی تخلیق کے بعد سب سے پہلا کفر کا سبب بھی حسد ہی ہے۔ اللہ تعالی نے جب سارے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو تعظیما سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس تعظیم کو دیکھ کر ابلیس جل اٹھا اور اس نے اللہ کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔ 
حسد وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان میں الله تعالیٰ کی معصیت کا باعث بنا اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین میں الله تعالیٰ کی نافرمانی کا سبب بنا۔ آسمان میں الله تعالیٰ کی معصیت سے مراد شیطان کا وہ قصہ ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔ آدم علیہ السلام پر حسد کیا، جس کی وجہ سے وہ مردود ہوا۔ 
اور زمین میں نافرمانی سے مراد آدم علیہ السلام کے بٹیے قابیل کا قصہ ہے کہ جس نے اپنے بھائی ہابیل کو حسد کی وجہ سے قتل کر دیا تھا، جس کا ذکر. ﴿واتل علیھم نبأ ابنی آدم بالحق﴾ کی آیت میں مذکور ہے۔
یعنی دنیا میں پہلا قتل بھی حسد کی وجہ سے ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹے نے جب خود کو حق پر رہنے کو ثابت کرنے کئے قربانی پیش کی اور اللہ تعالی نے جب ہابیل کی قربانی قبول کرکے اسے حق پر ہونے کا سرٹیفیکٹ دیا تو اس سے قابیل حسد کی آگ میں جل اٹھا اور نتیجہ میں اس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ 
حسد بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب اپنے والد محترم حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ محبت کرتے ہوئے دیکھا تو انہیں یہ بات بری لگی اور وہ حسد کی آگ میں جلنے لگے پھر جیسے ہی انہیں موقع ملا حضرت یوسف علیہ السلام کو جھوٹ بول کر گھر سے لے گئے اور کنویں میں ڈال دیا۔ 
حسد وہ بیماری ہے جس کا مریض دوسرے کسی کی ترقی، عزت و تکریم کو برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قوم نے نبوت سے پہلے "امین" و "صادق" کے لقب سے ملقب کیا تھا۔ جو قوم آپ کی ہر بات پر نبوت سے قبل بلا کسی شک و شبہ کے یقین کرلیتی تھی وہی قوم آپ کو نبوت کے عظیم مرتبہ سے سرفراز ہونے کے بعد آپ کی باتوں کی تکذیب کرتی تھی، پاگل دیوانہ کہنے لگی اور یہ سب اس حسد کی وجہ سے تھا جسے سرداران قریش یہ قطعی برداشت نہیں کر پارہے تھے کہ نبوت ان کو نہ ملکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں ملی؟ 
اس دنیا کا اصول ہی یہی ہےکہ ایک بندہ معاشی، سیاسی، علمی یا کسی اور میدان آگے بڑھ جاتا ہے  اور دوسرا پیچھے رہ جاتا ہے، یہ اللہ رب العزت کی طرف سے امتحان ہوتا ہے کہ وہ کسی کو دنیاوی نعمتیں دے کر آزماتا ہے تو کسی سے چھین کر آزماتا ہے..
وه اس لئے ہے کہ اس فرق کو خدائی فیصلہ سمجهہ کر اسے قبول کر لیا جائے مگر جب آدمی بڑے کی بڑائی کا اعتراف نہ کرے اور اس کو چهوٹا کرنے کی کوشش میں مصروف هو جائے تو وہ حسد کا شکار ہوجاتا ہے، گویا کہ وه خدا کے فیصلہ کو بدلنا چاہتا ہے- ایسا آدمی اللہ کی قربت کی لذتوں اور عبادات میں اخلاص کی چاشنی سے محروم ہوجاتا ہے-
حقوق العباد کے سلسلہ میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی کے دل میں دوسرے انسانوں کے لئے شفقت اور ہمدردی کا جذبہ هو، مگر حسد آدمی کے اندر سے انسانی ہمدردی کا جذبہ ختم کر دیتا ہے- 
قرآن میں تقوٰی کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ کسی سے دشمنی هو تب بهی آدمی اس کے بارے میں عدل و انصاف کی بات کہے- (المائده ) مگر جس آدمی کے دل میں کسی کے خلاف حسد اور جلن هو اس کے بارے میں انصاف کی بات کہنا اس کے لئے مشکل هو جاتا ہے- حسد کا جذبہ اس کو مجبور کردیتا ہے کہ وه اپنے محسود کے بارے میں وه بات کہے جس میں اس کے دل کو تسکین ملتی هو نہ کہ وه بات جو بطور واقعہ درست هو- 
حسد کی یہ صفت آج کل بالخصوص خونی رشتہ داروں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے، اس طرح کا حسد اور کینہ اچھے خاصے عبادت گزار اور نیک انسان کو اللہ کی نظر میں ظالم  اور بے انصافی کا مجرم بنا دیتا ہے.. 
انسانیت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ وه لوگوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ رائے قائم کرے-  اس قسم کی حقیقت پسندی دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے، لیکن حسد بلاشبہہ خود حاسد کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے بڑی محرومی ہے-
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ :
*كلُّ الناس أستطيع أن أرضيه إلا حاسد نعمة، فإنه لا يرضيه إلا زوالها*
ترجمہ : میں ہر شخص کو راضی کر سکتا ہوں سوائے "حاسد" کے وہ تبھی راضی ہوگا جب مجھ سے "نعمت" چھن جائے
(تاريخ دمشق)
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسد کی سخت مذمت فرماتے ہوئے کہا کہ : حسد کی آگ انسان کی نیکیوں کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس نے سابقہ اُمتوں کے دین و ایمان کو برباد کردیا ہے۔ جس دل میں حسد کی آگ جلتی ہے وہ کسی بھی حال میں اس کو چین لینے نہیں دیتی۔ حاسد محسود کو نیچا دکھانے، اس کی غِیبت کرنے اور موقع پاکر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ شاید اس طرح وہ اپنے دل کو تسکین کا سامان فراہم کرنے کی سعی لاحاصل میں لگا رہتا ہے۔ اسی لیے بعض دانشوروں نے کہا کہ: ’’حسد ایک ایسی آگ ہے، جس میں انسان خود تو جلتا ہی رہتا ہے ، لیکن دوسروں کے جلنے کی تمنا بھی کرتا ہے‘‘۔ اور بسااوقات ’محسود‘ کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہوجاتاہے۔
لیکن حسد کی اگ میں جلتے رہنے والی کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط، مسرت و شادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہوتا ہے۔ لوگوں میں حاسد کا وقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف و متنفرہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میں سے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی بھی باعزت و سرخ رو نہیں ہوسکتا۔ 
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
*سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں*
(المعجم الکبیر، الطبرانی، حدیث: 10582)
نظر بد بھی حسد ہی کا ایک حصہ ہے، نظرِ بد کی تاثیر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ اور حسد و نظرِ بد دونوں کی تاثیر مشترک ہوتی ہے، بس فرق اتنا ہے کی حسد موجود و غیر موجود اور وقوع پذیر و غیر وقوع پذیر ہر ایک نعمت میں ہوتی ہے اور اس کا مقام دل ہوتا ہے جب کہ نظر بد صرف سامنے کی موجود چیزوں میں ہوتی ہے اور عائن اکثر اپنے دلی حسد کی بنا پر اپنی آنکھوں کے ذریعہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نظر بد لگانے والا حاسد ہوتا ہے جب کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر حاسد نظر بد لگانے والا بھی ہو۔ لہٰذا سورہ فلق میں جو حاسد کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے اس میں عائن بھی داخل ہے۔ 
احنف بن قیس سے منقول ہے کہ حاسد کو راحت میسر نہیں اور بخیل کو خوش حالی اور کسی آزردہ خاطر کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ اور جھوٹا انسان آدمیت سے محروم ہوتا ہے ۔ خائن آدمی کی رائے نہیں ہوتی اور بدخلق آدمی سرداری کے لائق نہیں۔ 
فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ حرام کھانے والا، بکثرت غیبت کرنے والا، تیسرا وہ شخص جس کے دل میں مسلمانوں کے ساتھ کینہ اور حسد موجود ہو۔
حاسد پانچ طرح سے اپنے رب کا مقابلہ کرتا ہے۔
ایک یہ کہ وہ ہر اس نعمت کو بُرا جانتا ہے جو اس کے غیر کو ملتی ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ الله تعالیٰ کی تقسیم پر ناراض ہوتا ہے کہ تقسیم نعمت یوں کیوں ہوئی؟
تیسرے یہ کہ الله کے فضل پر بخل کرتاہے۔
چوتھے یہ کہ وہ الله کے ولی کی رسوائی اور اس سے نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرتا ہے ۔
پانچویں یہ کہ وہ اپنے دشمن یعنی شیطان ملعون کی اعانت اور مدد کرتا ہے۔
سورة النساء آیت نمبر ٣٢ اللہ کا فرمان ہےکہ 
*وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ*
اور تم ایسی چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے.... 
یہ آیت بالخصوص عورتوں کے لیے ہے مگر اسکا حکم عام ہے دنیا میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق رکھا گیا ہے.
کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں کم حصہ ملا ہے اور کسی کو زیادہ.
کوئی اچھے حالات میں پیدا ہوتا ہے اور کوئی برے حالات میں.
کسی کے پاس بڑے بڑے ذرائع ہیں اور کسی کے پاس معمولی ذرائع.
آدمی جب کسی دوسرے کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھتا ہے تو اس کے اندر فوراً اس کے خلاف جلن پیدا ہو جاتی ہے.
اس سے اجتماعی زندگی میں حسد، عداوت اور باہمی کش مکش پیدا ہوتی ہے.
مگر ان چیزوں کے اعتبار سے اپنے یا دوسرے کو تولنا نادانی ہے....... یہ سب دنیاوی اہمیت کی چیزیں ہیں. یہ دنیا میں ملی ہیں اور دنیا ہی میں رہ جانے والی ہیں.
اصل اہمیت آخرت کی کامیابی کی ہے اور آخرت کی کامیابی میں ان چیزوں کا کچھ بھی دخل نہیں.
آخرت کی کامیابی کا انحصار اس عمل پر ہے جو آدمی ارادہ و اختیار سے اللہ کے لئے کرتا ہے.
اس لئے بہترین عقلمندی یہ ہے کہ آدمی حسد سے اپنے آپ کو بچائے اور اللہ سے توفیق کی دعا کرتے ہوئے اپنے آپ کو آخرت کے لئے عمل کرنے میں لگا دے.
فرانسس بیکن کہتا ہے  حسد کبهی تعطیل کا دن نہیں مناتا :
*Envy  Never Makes Holiday.*
مطلب یہ ہے کہ حسد ایک ایسی چیز ہے کہ جو شخص اس میں گرفتار هو جائے وه برابر اسی میں پڑا رہتا ہے- وه ہر وقت حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے- کسی لمحہ اس کو قرار نہیں آتا- 
قال الشافعي رحمہ اللہ  : 
*كلُ العداوةِ قد تُرْجَى مودتُها*
*إلا عداوةَ من عاداك عن حسد*
( المكتبة العصرية، صيدا بيروت، ص ٥٦).
امام شافعی رحمہ اللہ سے یہ شعر منقول ہے 
ترجمہ : دشمنی چاہے جیسی بھی ہو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دوستی اور الفت ومحبت میں بدل جائے، لیکن صرف ایک ہی دشمنی ایسی ہے جس کے بارے میں ایسی امید نہیں کی جاسکتی اور وہ ہے دشمنی جس کی بنیاد حسد جلن پر ہو۔
الداعی : محمد شعیب اکمل 
.










No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner