سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرنا سنت مؤکد ہے

سحری میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرنا سنت مؤکدہ ہے


سب سے پہلے فقیه الملت امام ابن عثیمین رحمه الله کے فتوے کا ترجمہ دیکھ لیتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ : 
یہ بدعت ہے اور سنت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ سنت اس کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: "اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے فجر سے سفیدی (صبح) کا ڈورا سیاہی(رات) کے ڈورے سے ممتاز ہوجائے۔" اور رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو اذان دیتے ہیں لھذا اس وقت تک کھاؤ پیؤ جب تک کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ اذان نہ سن لو کیونکہ وہ طلوع فجر ہونے کے وقت ہی اذان دیتے ہیں، لھذا طلوعِ فجر سے کچھ وقت پہلے خورد و نوش (کھانے پینے) وغیرہ سے (بطورِ احتیاط) رک جانا جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں یہ اللّٰه تعالیٰ کے فرض کردہ اصول میں زیادتی ہے، جو کہ باطل ہے، نیز یہ الله تعالیٰ کے دین میں غلو ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص ہلاک ہوگیا جو غلو کرنے والا ہے، وہ شخص ہلاک ہوگیا جو غلو کرنے والا ہے، وہ شخص ہلاک ہوگیا جو غلو کرنے والا ہے۔ 
(فتاویٰ العقیدۃ:٦٥٧/٦٥٨)
سحری کے آخری وقت یا سحری کا وقت کب ختم ہوتا ہے، اس بارے میں، ہمارے اسلاف و اکابرین اسلام کے اقوال و افعال اور مجموعی موقف کو دیکھیں تو ہم لوگوں کے اوقات سے بالکل الٹ نظر آتا ہے، چلیں اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تاکہ ہمارے یہاں کے مروجہ اوقات پر نظر ثانی کرنے میں آسانی ہوجائے، 
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
*وَذَهَبَ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَقَالَ بِهِ الْأَعْمَشُ مِنَ التَّابِعِينَ وَصَاحِبُهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ إِلَى جَوَازِ السُّحُورِ إِلَى أَنْ يَتَّضِحَ الْفَجْرُ*
ترجمہ : صحابہ کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے اور یہی قول تابعین میں سے اعمش اور انکے ساتھ ابو بن عیاش کا ہے کہ سحری کرنا جائز ہے فجر کے واضح ہوجانے تک۔
سالم بن عبید تابعی، امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے حجرے میں موجود تھے ، اورسیدنا ابوبکر نے نماز پڑھی ، پھر مجھے کہنے لگے جاؤ باہر دیکھ کر آؤ فجر طلوع ہو گئی ہے ؟ 
میں باہر گیا جا کر دیکھا اور واپس آ کر بتایا کہ آسمان میں سفیدی سی ہوئی ہے ، یہ سُن کر آپ پھر نماز پڑھنے لگے ، پھر مجھے کہا کہ جاؤ اب دیکھ کر آؤ کہ فجر طلوع ہو گئی ہے ؟ 
میں گیا اور دیکھ کر واپس آیا اور بتایا کہ اب آسمان میں سورج کی سرخی آ گئی ہے ، 
یہ سن کر ابوبکر فرمانے لگے ہاں اب مجھے میری سحری لاکر دو۔
(سنن الدارقطنی 2187، امام دارقطنی نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے) 
اور امام ابن حجر نے بھی : فتح الباري میں نقل کیا ہے 4/137
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز پڑھ کر فرمایا :
اب جاکر کالا دھاگا سفید دھاگے سے الگ ہوا ہے۔
(تفسیر الطبری: 3/519) 
اس واقع کو حافظ ابن حجر نے صحیح قرار دیا ہے : فتح الباری: 4/117
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں اللہ تعالی نے سحری کے متعلق فرمایا :
کھاو اور پیو یہاں تک کہ تمھارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے واضح ہوجائے فجر میں سے۔
زِرّ بْنِ حُبَيْشٍ تابعی فرماتے ہیں کہ میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی کریم ﷺ کی سحری کا مشاہدہ کیا ہے تو انہوں نے کہا : 
style="font-family: Amiri;">
ہاں! وہ دن ہی تھا بس سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔
(سنن نسائی، ابن ماجہ وغیرھما)
امام ذھبی بے اسکی سند کو حسن قرار دیا ہے: المعجم المختص بالمحدثین: 1/64
حافظ ابن حجر نے بھی اس واقع کو صحیح قرار دیا ہے: 4/136
وَرَوَى ابن أبي شيبة وَعبد الرزاق ذٰلِكَ عن حُذَيْفَةَ مِنْ طُرُقٍ صَحِيحَةٍ
امام مسروق تابعی فرماتے ہیں :
*لم يَكُن يَعُدُّونَ الفجر فَجْرَكُمْ، إنَّما كانُوا يَعُدُّونَ الفجر الَّذي يَمْلَأُ البُيُوت*
ترجمہ : (سلف صالحین) اس کو فجر نہیں شمار کرتے تھے کہ جسکو تم فجر شمار کرتے ہو۔ وہ اسے فجر شمار کرتے تھے جو گھروں اور راستوں کو روشنی سے بھردے۔ 
ابن ابي شیبة: 9075، المحلی: 4/373
امام معمر رحمہ اللہ اس قدر تاخیر سے سحر کرتے تھے صبح کے واضح ہونے تک کہ جاھل شخص کہتا کہ انکا تو روزہ ہی نہیں۔
مصنف عبدالرزاق: 7605
امام اعمش فرماتے ہیں :
*لَوْلَا الشُّهْرَةُ لَصَلَّيْتُ الْفَجْرَ ثُمَّ تَسَحَّرْتُ اتِّبَاعًا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ*
ترجمہ : گر بدنامی کا خدشہ نہ ہوتا تو میں پہلے فجر کی نماز ادا کرتا پھر سحری کرتا نبی ﷺ کی حدیث کی اتباع کرتے ہوئے۔
الْفَقِيهُ وَالْمُتَفَقِّهُ 1/389
ابرایھم النخعی فرماتے ہیں :
*الوتر بالليل والسَّحور بالنهار*
ترجمہ : وتر رات میں ہوں گے اور سحری دن میں۔
(تفسیر الطبری: 3/521، مصنف ابن ابي شیبة) 
امام طبری فرماتے ہیں:
اس قول کے قائلین کی یہ دلیل ہے کہ دن کا پہال حصہ سورج طلوع ہونے سے ہوتا ہے جیسا کہ اسکا آخری حصہ سورج کے غروب ہونے سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر دن کا پہلا حصہ فجر کے پھوٹنے سے ہوتا تو دن کا آخری حصہ دن کی سرخی غائب ہونے سے ہوتا (مغرب کی نماز کے بعد کا وقت)۔ جبکہ اجماع میں حجت ہے کہ دن کا آخری حصہ سورض غروب ہونے کا وقت ہے۔ تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے دن کا ابتدائی حصہ سورج طلوع ہونے سے ہے۔ 
تفسیر: 3/521
شیخ البانی فرماتے ہیں :
میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بعض ممالک عربیہ میں فجر کی اذان فجر صادق سے آدھا گھنٹا پہلے دے دی جاتی ہے اور لوف فجر کی سنتیں فجر کے وقت سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اور رمضان میں بھی وقت سے پہلے ہی فرض نماز پڑھنے میں جلد بازی کرتے ہیں، اور اس میں لوگوں پر تنگی ہے انکا سحری کا وقت بند کرنے میں اور وقت سے پہلے نماز پڑھانے میں اور اسکا سبب فلکی کلنڈر پر انکا اعتماد ہے اور شرعی اوقات سے اعراض ہے جو کہ یہ ہے :
کھاو اور پیو یہاں تک کہ تمھارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے واضح ہوجائے فجر میں سے.... یعنی کھاو پیو یہاں تک کہ سرخی نہ پھیل جائے۔
السلسة الصحیحة: 5/52، 2031 (باختصار وتصرف)
ہمارے ہاں بھی یہی حساب ہوگیا ہے کہ اچھے خاصے اندھرے میں کیلنڈر کے ٹائمنگ پر اعتماد کرکے سحر کا وقت ختم ہونے سے پندرہ بیس منٹ پہلے ہی سائرن بجا کر سحری بند کروادی جاتی ہے جبکہ سلف میں باقاعدہ روشنی ہونے تک کھانے پینے کا جواز موجود تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے صبح کاذب کو صبح صادق سمجھ لیا ہے کیلنڈر کے اوقات کو حرف آخر مان کر....! 
اب آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نظام اوقات  پر مکمل چھان بین ہونے کے بعد کیلنڈر میں ٹائمنگ دی جاتی ہے.. 
  مجھے تو نہیں سمجھ آتا کہ کس چیز کی چھان بین ہوتی ہے۔ اسلاف کے اقوال و افعال سامنے رکھ کر ہم خود ہماری آنکھوں سے مشاہدہ کرکے دیکھیں، ہم ہماری آنکھوں پر اعتماد نہ کریں گے کیا....؟؟
کیلنڈر میں درج اوقات تو "احتیاطی وقت" کے نام پر پورے نظام الاوقات  کو خراب کرکے رکھ دیا ہے۔
.
مذکورہ بالا تو سحری کے اوقات تھے، اب ایک نظر ہمارے اسلاف کے افطار کے اوقات پر بھی ڈال لیتے ہیں.... 
سہیل بن عمرو فرماتے ہے  : 
*"لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفطر في شهر رمضان ويخيل إلى أن الشمس لم تغرب من تعجيل فطره"*
ترجمہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہ رمضان میں افطار کرتے ہوئے دیکھا اور ایسا لگتا تھا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا آپ (علیہ السلام) کا افطار میں جلدی کرنے کی وجہ سے۔
(الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم ٣/١٧١ حديث حسن)
ایمن فرماتے ہے : 
*عن أبي سعيد قال دخلت عليه فأفطر على عرق وإني أرى الشمس لم تغرب* 
ترجمہ : میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہوا وہ گوشت کی ایک ہڈی سے افطار کر رہے تھے اور میں نے دیکھا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔
(المصنف ابن ابي شيبة 2/420 صحيح)
حمید الطویل بیان کرتے ہے :
*عن أنس ، أنه « لم يكن ينتظر المؤذن في الإفطار وكان يعجل الفطر*
ترجمہ : انس رضی اللہ عنہ افطار کے لیے مؤذن (کی اذان) کا انتظار نہیں کرتے تھے اور افطار کے لیے جلدی کرتے تھے۔
(الصيام للفريابي ٤٧ صحيح)
حمید الطویل سے ایک روایت ہے کہ :
*"عَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ أَنَسٍ، وَكَانَ صَائِمًا " فَدَعَا بِعَشَائِهِ، فَالْتَفَتَ ثَابِتٌ يَنْظُرُ إِلَى الشَّمْسِ وَهُوَ يَرَى أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَغِبْ، فَقَالَ أَنَسٌ لِثَابِتٍ: لَوْ كُنْتَ عِنْدَ عُمَرَ لَأَحْفَظَكَ"*
ہم انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور وہ روزے سے تھے، انہوں کھانا منگوایا اور ثابت پلٹ کر سورج کی طرف دیکھنے لگے اور دیکھا سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے ثابت کو کہا : اگر تم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوتے تو وہ اس پر غصہ ہوجاتے 
(یعنی تاخیر سے افطار کرنے پر سورج کے مکمل غروب ہونے تک).
(الصيام للفريابي٤٦ وسنده صحيح)
۔
الغرض غروبِ آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کرنا مستحب ہے، تاخیر چاہے وہ ایک دو منٹ ہی کی کیوں نہ ہو، جیسا کہ بعض لوگ برسبیلِ احتیاط کرتے ہیں.. جائز نہیں ؛ 
کیونکہ یہ تاخیر رسول ﷲ  ﷺ کی حدیث کے خلاف ہے۔
اب صریح نصوص پر بھی پیش خدمت ہے، جو عموماً سب کو معلوم ہیں..، اکثر علماء اور خطباء اپنے بیانات ان احادیث کو کھول کھول کر بتاتے رہتے ہیں، لیکن اسکے باوجود ہمارا عمل اسکے خلاف ہوتا ہے. 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، 
کیونکہ یہود و نصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں ۔ 
(سن ابی داؤد 2353 )
عن سھل بن سعد  ان النبی ﷺ قال : 
*’’لایزال الناس بخیر ماعجلوا الفطر‘‘*
ترجمہ : سھل بن سعد  سے مروی ہے، رسول اﷲ نے فرمایا : ’’لوگ اس وقت تک خیر پر قائم رہیں گے، جب تک روزہ کے افطار میں جلدی کرتے رہیں گے‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور وتأکيد استحبابه
(صحیح بخاری : ۱۹۵۷) (صحیح مسلم : ۲۵۴۹)
ایک حدیثِ قدسی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ، کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
*’’إن أحب عبادی إلی أعجلھم فطرا‘‘*
(جامع ترمذی(۶۹۹)
ترجمہ : ’’بے شک میرے نزدیک سب سے محبوب میرے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں سب سے زیادہ جلدی کرتے ہیں
(یعنی سورج غروب ہوتے ہی)‘
(جامع ترمذی(۶۹۹)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*إِنَّا مَعْشَرَ الأنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُؤَخِّرَ سُحُوْرَنَا، وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَ.*
ترجمہ : ’’ہم گروہِ انبیاء علیہم السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری تاخیر سے اور افطار جلدی سے کریں۔‘‘
( ابن حبان، الصحيح ، رقم ، ١٧٧٠) 
اگر کوئی شخص سحری میں اتنی تاخیر کر بیٹھے کہ اذان شروع ہو جائے تو اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
*إِذَا سَمِعَ أَحَدَکُمْ النِّدَاءَ، وَالْاِنَاءُ عَلَی يدِه فَلَايضَعْه حَتَّی يقْضِيَ حَاجَتَه مِنْه*
ترجمہ : ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضروریات پوری کیے بغیر اسے نہ رکھے۔‘‘
ابو داود،السنن، کتاب الصوم، باب فی الرجل يسمع النداء، 2 :  292، رقم : 22350
حاکم، المستدرک علی الصيحين، 1 :  323، رقم : 740
ایک اور روایت ہے کہ :
*قال رسول الله ﷺ  :  ثلاثٌ من أخلاقِ النُّبوةِ: تَعجيلُ الإفطارِ، وتأخيرُ السُّحورَ، ووضْعُ اليمينِ على الشِّمالِ في الصلاةِ*
ترجمہ : رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں اخلاقِ نبوت میں سے ہیں:افطار میں جلدی کرنا؛ سحر میں تاخیر کرنا اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنا! 
(البانی، صحیح ، صحيح الجامع ٣٠٣٨)
وضاحت : افطار میں جلدی سے مراد یہ ہے کہ وقت ہوتے ہی افطار کر لیا جائے اور خواہ مخواہ تاخیر نہ کی جائے اور سحر میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ آخری وقت تک سحری جاری رکھی جائے نہ یہ کہ وقت ختم ہونے کے بعد بھی سحری کرتے رہیں۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضح ہوا کہ سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کرنا سنت ہے۔ سحری میں تاخیر اور افطاری جلدی کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور انسان بھوک پیاس کی شدت سے محفوظ رہتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کیا کرو خواہ پانی کا ایک گھونٹ، کھجور کا ایک ٹکڑا یا منقی کے چند دانے ہی کیوں نہ ہو۔
طبرانی، مسند الشاميين، 1 :  32، رقم :  16
اسی طرح افطاری جلد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس طرزِ افطاری سے یہود و نصاریٰ کی مخالفت مقصود ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ روزہ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ ستاروں کے ظاہر ہونے تک انتظار کرتے ہیں جس سے نجوم پرستی کا شائبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک امتِ مسلمہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی اس وقت تک سنت کی پابندی اور حدودِ شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہے گی۔
*واللہ و رسولہ اعلم بالصواب*
عام طور پر افطاری کے وقت اکثر لوگ گھر کو بھاگ رہے ہوتے ہیں تا کہ افطاری سے قبل گھر پہنچ جائیں...! 
خدا کے بندو : چند کھجوریں پاس رکھ لو...، جہاں افطار وقت ہوا، وہاں آرام سے روزہ افطار کر لو، تاکہ سنت وقت کے مطابق روزہ افطار ہوجائے.....،سڑک پر اتنی افراتفری مچانے کی کیا ضرورت ہے....،باقی گھر پہنچ کر کھا پی لینا...
الداعی : محمد شعیب اکمل
نوٹ : اس مضمون اگر کہیں املاء کی غلطیاں مل جائیں تو اسکو صحیح کرکے آگے فارورڈ کرلیں، مجھے اب موبائل اسکرین پر الفاظ بہت مدھم نظر آرہے ہیں، اس لیے میں نے لکھنا بہت کم کردیا ہے، شائد مجھے عینک لگنے کا امکان ہے. 

.










No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner