آج کا مسلمان کمزور کیوں ہے.؟

آج کا مسلمان کمزور کیوں ہے؟ – قیادت، شعور اور جدوجہد کا فقدان 

آج کا مسلمان کمزور کیوں ہے.؟

تحریر: محمد فصیح الدین کورٹلہ 


آج کا مسلمان ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کی مساجد آباد ہیں، عبادات میں ظاہری سرگرمی ہے، لیکن جب بات ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی آتی ہے، تو گویا زبانیں گنگ اور دل مردہ ہو چکے ہیں۔ ایک طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے، خاص طور پر ہندوستان جیسے ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، تو دوسری طرف اُمت کے علماء اور قائدین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

کمزوری کی اصل وجہ کیا ہے؟


  . دین کا صرف ظاہری پہلو اپنایا جا رہا ہے: *
 
نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات اسلام کا بنیادی حصہ ہیں، مگر دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں۔ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو عدل، قیادت، معیشت، تعلیم، سیاست، اور مزاحمت کے اصول بھی سکھاتا ہے۔ جب مسلمان صرف نمازوں تک محدود ہو جائے اور سماجی انصاف، سیاسی شعور، اور ظلم کے خلاف اقدام کو ترک کر دے، تو کمزوری ناگزیر ہے۔

. علماء کا کردار محدود ہونا * 


آج کے بیشتر علماء صرف فقہی مسائل، طہارت، نماز اور فتویٰ جات تک محدود ہو گئے ہیں۔ معاشرتی ناانصافی، سیاسی استحصال، اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر ان کی زبان خاموش ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے دین کے تحفظ کے لیے یزیدی ظلم کے خلاف قیام کیا، مگر آج کے علماء "فتنہ نہ ہو" کے نام پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

 قیادت کا فقدان  *:


آج اُمتِ مسلمہ کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو نیک، بہادر، باعلم، اور عوام سے جُڑی ہوئی ہو۔ جو دین کو صرف منبر و محراب تک محدود نہ رکھے، بلکہ میدانِ عمل میں رہنمائی کرے، تعلیم و معیشت پر کام کرے، اور مظلوموں کی ڈھال بنے۔

مسلمانوں پر مظالم کو کیسے روکا جائے؟

. مسلمانوں کو منظم کیا جائے  *:
ہر علاقے میں کمیونٹی سینٹرز، قانونی مدد کے مراکز، تعلیمی ادارے، اور میڈیا یونٹس قائم کیے جائیں جو مظلوموں کی حفاظت اور آواز بن سکیں۔

. مضبوط قیادت تیار کی جائے  *:

ہر شہر اور ضلع میں دیانت دار، باصلاحیت اور نوجوان قیادت کو اُجاگر کیا جائے۔ ان کی تربیت علمی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں کی جائے تاکہ وہ اُمت کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔

. قانونی و آئینی جدوجہد *

ہندوستان کا آئین تمام شہریوں کو برابری، مذہبی آزادی، اور قانونی تحفظ دیتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قانونی راستوں پر مکمل عبور حاصل کریں، انسانی حقوق کے اداروں سے جُڑیں، اور ظلم کے ہر واقعے کو قانونی دائرے میں لا کر مضبوطی سے لڑیں۔


. مسلم میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کی تعمیر  * 
 
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کرنے کے لیے آزاد میڈیا پلیٹ فارم، یوٹیوب چینلز، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پر اپنی ٹیمیں تیار کریں تاکہ مظلوموں کی حالت عام دنیا تک پہنچائی جا سکے۔

مسلمانوں کا قائد کیسا ہو؟  *  
. خوفِ خدا رکھنے والا اور دین دار * 
 سیاسی شعور اور معاملہ فہمی کا ماہر  * 
. قوم  کا خیر خواہ، غریب پرور، اور خدمت گزار * *
 ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والا اور قول و فعل میں سچا* 
 
 علمی، روحانی اور عملی قیادت کی صلاحیت رکھنے والا* 


علماء کی بیداری ناگزیر ہے


اگر علماء کرام منبر و محراب کو ظلم کے خلاف بیداری کے مرکز میں تبدیل کریں، نوجوانوں کی تربیت کریں، اور میدانِ عمل میں آئیں، تو اُمت کو نئی روح مل سکتی ہے۔

آج مسلمان کثرت سے عبادات میں مشغول نظر آتا ہے۔ مسجدیں آباد ہیں، اذانیں گونجتی ہیں، اور ہر سال لاکھوں لوگ حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ: کیا صرف عبادات ہی دینِ اسلام کا مکمل پیغام ہیں؟ کیا نماز، روزہ، تسبیحات اور اذکار سے ہی اُمت کی ترقی ممکن ہے؟ اگر ایسا ہوتا، تو آج مسلمان دنیا بھر میں مظلوم نہ ہوتا، ان کے ملک تباہ حال نہ ہوتے، اور قیادت کا بحران نہ ہوتا۔

اسلام ہمیں صرف عبادت سکھانے نہیں آیا، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی دینے اور ظلم کے خلاف قیام کا درس دیتا ہے۔

اسلام کا انقلابی پیغام


قرآن مجید کی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام ایک انقلابی، متحرک اور عملی دین ہے۔ اس دین کا مقصد صرف فرد کی نجات نہیں بلکہ معاشرے میں عدل، مساوات اور قیادت کا قیام ہے۔

"تم بہترین اُمت ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔"
(سورہ آل عمران: 110)

یہ آیت ہمیں صرف عبادت گزار بننے کا نہیں، بلکہ نظام کی تبدیلی، سماجی اصلاح، اور ظلم کے خلاف قیام کا حکم دیتی ہے۔
---

عبادات کے ساتھ قیامِ عدل کیوں ضروری ہے؟


عبادات سے فرد کی اصلاح ہوتی ہے، مگر اگر وہ فرد اپنی عبادات کے اثرات کو سماج میں نہ لائے، ظالم کے خلاف آواز بلند نہ کرے، ناانصافی پر خاموش رہے، تو عبادات کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سب سے افضل جہاد وہ ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے۔"
(ابو داؤد)
---

آج اُمت کو کیا کرنا چاہیے؟


 ظلم کے خلاف قیام  *   :

خواہ وہ سیاسی ہو، سماجی ہو یا معاشی، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ظلم کے خلاف مؤثر اور پرامن طریقے سے آواز بلند کریں۔ عدالتوں، میڈیا، اور تعلیمی پلیٹ فارمز پر حق کے لیے کھڑے ہوں۔


     انصاف کی ترویج  *

  :
مسلمان معاشروں میں عدل، مساوات اور شفافیت کا نظام قائم کیا جائے۔ اپنے محلوں، مدارس اور اداروں میں ہر فرد کو برابری کا درجہ دیا جائے۔


 علم کا فروغت *    
:
اُمت کا سب سے بڑا زوال علم سے دوری ہے۔ ہمیں عصری اور دینی دونوں علوم میں مہارت حاصل کرنی ہوگی۔ اپنے بچوں کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے ساتھ اسلامی فکر دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔


. مضبوط قیادت کی تشکیل  *
   
قیادت کا بحران آج کے مسلمان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہمیں ایسے نوجوان تیار کرنے ہوں گے جو علم، کردار اور بصیرت میں ممتاز ہوں، اور اُمت کو عزت و وقار کی طرف لے جا سکیں۔

---

نتیجہ: اُمت کی فلاح کس میں ہے؟


اگر مسلمان صرف نماز، روزہ اور ذاتی نجات تک محدود رہا، تو یہ اُمت کبھی دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ اسلام کے جامع اور انقلابی پیغام کو اپنائیں، اور اپنی عبادات کو ایک زندہ، بیدار، اور منظم معاشرہ بنانے کا ذریعہ بنائیں۔

ظلم کے خلاف قیام، انصاف کی ترویج، علم کا فروغ، اور مضبوط قیادت کی تشکیل ہی وہ راستہ ہے جو اُمت کو دوبارہ عزت اور وقار کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔


ظلم، کمزوری اور قیادت کے بحران سے نکلنے کے لیے مسلمانوں کا لائحہ عمل


*. فکری بیداری:


اسلام کو صرف عبادات تک محدود نہ سمجھا جائے۔

اُمت کو دینِ اسلام کے انقلابی، اجتماعی اور عملی پیغام سے واقف کرایا جائے۔

خطبات، دروس، اور تعلیمی سیشنز میں ظلم، عدل، قیادت، اور اجتماعی شعور کو اجاگر کیا جائے۔


*. منظم تعلیمی و تربیتی تحریک:

ہر محلے اور بستی میں اسلامی تعلیم، حالاتِ حاضرہ، اور قیادت سازی پر مبنی حلقے شروع کیے جائیں۔

نوجوانوں کو صرف اسکول و کالج نہیں، بلکہ تحریکی، فکری، اور عملی تربیت دی جائے۔
آن لائن اور آف لائن تربیتی نصاب متعارف کرایا جائے۔


*. علماء کی اصلاح اور بیداری:


علماء کرام کو محض فقہی اور روایتی موضوعات سے نکال کر عصرِ حاضر کے چیلنجز، قیادت، سیاست، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی تربیت دی جائے۔
اتحادِ علماء، اصلاحِ معاشرہ اور قیادت سازی پر زور دیا جائے۔


*. قیادت کی تشکیل:

ایک غیر سیاسی، غیر فرقہ وار، محنتی، باکردار، اور تعلیم یافتہ قومی پلیٹ فارم بنایا جائے۔
مقامی سطح پر "محلہ کمیٹیاں" قائم کی جائیں، جو انصاف، مدد، تعلیم، اور نظم و ضبط کا نظام سنبھالیں۔
نوجوانوں کو قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ کیا جائے۔


*. ظلم کے خلاف پرامن اور منظم مزاحمت:

دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج، قانونی چارہ جوئی، اور میڈیا کمپین کے ذریعے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
سوشل میڈیا، اخبارات، اور عدالتوں کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔


*. معاشی خودکفالت:


مسلمانوں کے اندر وقف، زکوٰۃ، تعاون، اور تجارت کے ذریعے ایک مضبوط معاشی بنیاد بنائی جائے۔
بیروزگار نوجوانوں کے لیے تربیت، کاروباری مدد، اور مالی مشاورت فراہم کی جائے۔

*. اتحادِ اُمت:

مسلک، ذات، اور زبان سے بالاتر ہو کر امتِ واحدہ کا تصور زندہ کیا جائے۔
اختلافِ رائے کو قبول کرتے ہوئے ایک مقصد (ظلم کے خاتمے اور اسلام کے نفاذ) پر متحد ہو جائیں۔

--
اختتامیہ:
وقت آ گیا ہے کہ مسلمان خود کو صرف عبادات تک محدود نہ رکھے، بلکہ اسلام کے انقلابی پیغام کو اپنائے۔ ظلم کے خلاف قیام، انصاف کی ترویج، علم کا فروغ، اور مضبوط قیادت کی تشکیل ہی وہ راستہ ہے جو اُمت کو دوبارہ عزت اور وقار کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔




Join ourGroups
WhatsApp Group,Join Now
Telegram GroupJoin Now

No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner