مسلم لڑکیوں کو ارتداد سے روکنے کیلئے ہم کیا اقدامات کررہے ہیں


مسلم لڑکیوں کو ارتداد سے روکنے کیلئے ہم کیا اقدامات کررہے ہیں؟


.

پچھلے  ہفتے ایک سرکاری اسکول کی ویڈیو جو
 بہت زیادہ وائرل ہوئی تھی، جس میں مڈڈے میل یعنی دوپہر کے کھانے سے پہلے مسلمان نونہال بچیوں کو سنسکرت میں کچھ منتر پڑھائے جارہے تھے..!! 
ایک مٹھی چاول اور ایک چلو دال کے عوض کس طرح امت مسلمہ کے نونہال بچیوں کے ایمان کی بنیاد کو بہالے جانے کی کوشش ہورہی ہے..!!
اگر آپ نے امت مسلمہ کے نونہال طالب علموں کو بچپن میں نتھرا ہوا صاف شفاف آب زلال سے سیراب نہ کیا تو ملت کو کبھی مائے صافی دستیاب نہ ہوگا..!!
اس ویڈیو سے متعلق بہت سے تبصرے سوشل میڈیا پر ہورہے ہیں...، 
کیا ہم اسی طرح ردعمل کی نفسیات میں منفی تبصرہ کرتے رہیں گے یا اسکا حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے..؟؟ 
اب آپ سوچ رہے ہوں گےکہ، ہم پچیس کروڑ کی آبادی کے لیے اتنا بڑا مسلم مینجمنٹ اسکولز کا اتنا بڑا انفرا اسٹرکچر کہاں سے لائیں کہ مسلمانوں کے کروڑوں بچوں کی تعلیمی ضروریات کے لیے کافی ہو..؟؟ 
تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اسکا سب سے آسان حل یہ ہےکہ ہم اپنے بچوں کو مسلم مینجمنٹ نجی اسکولوں داخلہ دلوائیں، اور اگر آپ نجی اسکولز کی فیس دینے سے قاصر ہیں، تو ایسے سرکاری مدارس میں داخلہ دلوائیں جہاں کچھ مسلم اساتذہ بھی موجود ہوں.. 
اب اسکا دوسرا حل یہ ہے کہ : ہمارے موجودہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے صرف دو تین فیصد مسلم نونہال ہی جاتے ہیں، اور بقیہ مسلم بچے دینی مدارس کے تعلیمی وتربیتی فیض سے محروم رہتے ہیں، جن کی اکثریت بنیادی درجہ کا دینی علم بھی نہیں رکھتی، اور طرح طرح کی بے دینی وگمراہی کا شکار ہورہی ہے.. جیساکہ آئے دن بہت سی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں.. 
دینی مدارس کی مبارک فضا میں صرف وہی بچے جاتے ہیں جن کے والدین انہیں حافظ یا عالم بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن جنکے والدین اپنے بچوں کو عصری علوم آگے بڑھانا چاہتے ہیں وہ ان دینی مدارس کی طرف پلٹ کر بھی دیکھنا نہیں چاہتے...!! 
لیکن اگر دینی مدارس کے ذمہ داران، اپنے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم ، پرائمری سے لےکر ہائی اسکول (دسویں جماعت تک کے) کی تعلیم کا نظم شروع کردیں تو اس صورت حال میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے.... اور ان مدارس میں ایسے طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد داخل ہوگی جن کے والدین نے انہیں عالم وحافظ بنانے کا ارادہ نہیں کیا ہے، لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ہائی اسکول میں آنے تک دین بنیادی اصول ، قرآن حدیث کا بنیادی علم اور عربی زبان بھی کسی حد تک سیکھ جائیں... 
بچے عام طور پر چار پانچ برس کی عمر میں تعلیم کا آغاز کرتے ہیں اس طرح وہ جب اس نظام کے تحت دسویں جماعت تک کی تکمیل کریں گے تو ان کی عمر چودہ پندرہ برس ہوگی، اور وہ اب آگے عالمیت کے درجات میں آگے بڑھنا چاہیں تو آگے پڑھ سکتے ہیں یا پھر کسی جونیر کالج میں داخلہ لے کر عصری علوم میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں..
اس نظام کا آغاز جو مدارس بھی کریں گے امید ہے کہ ان کو گرد وپیش کے مسلم بچوں کی ایک بڑی تعداد تک اپنا فیض پنہچانے اور ان کی دینی تعلیم وتربیت کرنے کا موقعہ ملے گا، اس طرح ان کا دائرہ محدود نہ ہوکر خاصا وسیع ہوسکتا ہے، اور وہ اپنے معاشرہ کے لیے زیادہ مفید بن سکیں گے۔
دینی مدارس میں دسویں جماعت  تک کے ایسے درجات کے قیام میں کوئی خاص پیچیدگی بھی نہیں ہے، دینی مدارس نصاب میں اپنے موضوعات کے ساتھ ہائی اسکول لیول تک کی انگریزی، ہندی، ریاضی سائنس وسماجیات کی کتابیں داخل کرنا کچھ مشکل کام بھی نہیں ہے، اور اس نصاب کو کوشش کرکے ریاستی حکومت کے نصاب کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے، جو طالب علم کو دین کے بنیادی علم سے بہرہ ور کردے، اور اسے ایک سوچا سمجھا مسلمان بنادے۔
خیر یہ تو تھا امت مسلمہ کے نونہال بچوں کا حل... اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ مسلمان بچیوں کی دینی تربیت کیسے جائے، ویسے دس سال سے کم عمر کی بچیاں مساجد سے جڑے مکاتیب میں جاتی ہیں، لیکن اسکے بعد انکی دینی تربیت کا ماحول کہاں ہے...؟ 
لڑکے اگر کسی نجی یا سرکاری غیر مسلم مینجمنٹ والے اسکول میں پڑھنے جائیں بھی تو ان کو دینی تربیت کا ماحول مسجد سے جڑے رہنے سے ملتا رہتا ہے، لیکن یہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہماری مسلمان بچیوں کی دینی تربیت کا ہمارے پاس کچھ انتظام ہے...؟؟
.
مردوں کو دینی احکام و مسائل سیکھنے کے بہت سے مواقع حاصل ہوتے ہیں جبکہ عورتیں اس سے محروم رہتی ہیں۔
  مساجد تعلیم و تربیت کا موثر ذریعہ ہیں اور عام جگہوں کی بنسبت زیادہ محفوظ بھی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر وہ مسجد جاکر نماز باجماعت ادا کر لیں تو اس میں کیا  مضائقہ ہے؟جبکہ دور نبوی میں عشاء اور فجر کی نمازیں خواتین مسجد میں پابندی سے باجماعت ادا کرتی  تھیں۔ 
میں قارئین کو حضرت عمر اور ان کی بیگم کے درمیان، مسجد میں نماز ادا کرنے کے سلسلے میں ہوئی گفتگو یاد دلانا چاہوں گا۔حضرت عمر کہہ رہے ہیں : اگر آپ مسجد نہ جاتیں تو اچھا تھا۔ انکی بیوی جواب میں کہتی ہیں کہ آپ مجھے حکماً روکئے تو میں رکوں گی ورنہ مسجد ہی میں جاکر نماز ادا کروں گی۔ حضرت عمر اپنی اہلیہ کی اس بات پر سپر ڈال یتے ہیں۔
بات در اصل یہ ہے کہ مدتوں کا زنگ خوردہ تقلید جامد کے سانچے میں ڈھلا ہمارا دینی معاشرہ عورتوں کو عصری تعلیم حاصل کرنے.... نوکری کرنے..... غیر مسلم مرد ڈاکٹروں سے اپنی عورتوں کا علاج کروانے..... شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں بیوٹی پارلر سے سج دھج کر، خوشبوؤں سے بھرپور میک اپ تھوپ تھوپ کر، زرق برق کپڑے پہن کر جانے..... اپنی عورتوں کو دھوم دھڑاکے سے شاپنگ کرنے اور بازاروں کی رونق بڑھانے پر تو خاموش ہے مگر اللہ کی بندیوں کو بغیر خوشبو لگائے اور دوسری بہت سی شرائط کے ساتھ اللہ گھروں میں اللہ کی عبادت کرنے میں اسے سخت اعتراض ہے 
اور یہ اعتراض *"مکروہ تحریمی"* کے درجے میں ہے...!!!
.
ان کے لئے ائمہ کی آراء صحیح احادیث سے بھی زیادہ قابل اعتنا اور قابل استناد ہیں....!!!؟؟
خواتین کا مسجد میں نماز پڑھنے کو مکرہ تحریمی کہنے والوں کے پاس ان صحیح صریح اور متفق علیہ احادیث کا کیا جواب ہے..؟ 
*لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّہ* 
(صحیح بخاری:900 /صحیح مسلم:442)
ترجمہ : ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔‘‘
ایک دوسری متفق علیہ حدیث میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
*إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ* 
(صحیح بخاری : 865 /صحیح مسلم : 442)
ترجمہ : ’’عورتیں اگر تم سے رات کی نماز مسجد میں ادا کرنے کی اجازت طلب کریں تو انہیں اجازت دے دیا کرو۔‘‘
مسجد میں خواتین کی نماز کے رد میں لطیفے گڑھنے والے، طعنے دینے والے، بھدّے فقرے کسنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کا استہزاء صریح حدیث کے بالمقابل ہے
کیا یہ گستاخی نہیں؟
کیا یہ توہینِ رسالت کے زمرے میں نہیں آتا؟
اپنے اس غلط موقف پر اصرار، غیر مہذب ردّعمل اور سطحیت کا مظاہرہ تنگ نظری اور اخلاقی گراوٹ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ 
مولانا حالی نے اپنی "مسدس" میں اسی صورت حال پر نہایت کرب اور رنج سے کہا تھا کہ :
*اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں....!!!*
 
  آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری بیٹیاں ہندووں کے ساتھ شادی رچا رہی ہیں، بھنگیوں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں۔ ہماری معصوم اور مفلس نونہال بچیاں دو نوالے کھانے کے لیے سرکاری اسکولوں میں سنسکرت کے اشلوک پڑھنے پر مجبور ہورہی ہیں....! 
آخر ہمارے ان جامد العقل، والفکر علمائے کرام نے ان لڑکیوں اور دینی تعلیم و تربیت سے محروم عورتوں کے لئے کیا سوچا ہے اور کیا انتظام کیا ہے...!!؟؟
آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان خواتین کے لئے مسجدوں کے دروازے کھول دئے جائیں.. ان کے لئے مکمل پردے کے ساتھ  مناسب تذکیر، تعلیم اور ذہنی و فکری تربیت اور عقیدے کی پختگی کا معقول بندوبست کیا جائے۔ جس سے وہ یکسوئ کے ساتھ نماز ادا کر سکیں اور مساجد میں خواتین کےلیے ایک الگ داخلے کا دروازے کا انتظام ہو، تاکہ ان کی آمد و رفت آسانی سے ہوا کرے۔
حالات کے تقاضوں کو سمجھیں، سابقہ مواقف کاجائزہ لیں، مراجعت کریں، فوری طور پر مساجد میں خواتین کی نماز کیلیے جگہ بنائیں، حالات، معاشرہ اورخواتین کی دینی حالت کا شدید تقاضا ہےکہ جو خواتین  مساجد کے دینی ماحول والے تربیتی فضا میں آنا چاہتی ہیں انھیں نہ روکیں.. 
. ;
یہاں پر ایک اور بات واضح کردوں، کچھ لوگ عورتوں کو مساجد سے جوڑنے کی مہم چلارہے ہیں، 
ان سے میرا سوال ہےکہ، بھائی دین اسلام میں خواتین کو مساجد سے جوڑنے کی مہم چلانے کا حکم کہاں پر آیا ہے؟
اصل میں بات یہ ہے کہ اللہ کی بندیوں کی مساجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنے سے روکا بھی نہیں جاسکتا ہے.. اور نہ ہی اللہ کی بندیوں کو گھسیٹ کر مسجد میں لانے کی تحریک یا مہم چلائی جاسکتی ہے، کیونکہ عورت کی نماز اس کے گھر میں افضل ہے. گھر کے اندر کمرے میں اس سے زیادہ افضل ہے، 
قرآن و صحیح احادیث اور متقدمین امت کے سلف صالحین کا مجموعی موقف یہی ہےکہ عورتیں گھروں میں رہیں، گھروں میں نماز پڑھیں،  بوقت ضرورت باہر نکلنے پر دنیا بھر کے شرائط بتائے گئے ہیں۔۔ 
گویا مسلم عورتوں کی پوری دنیا اسکے شوہر کا گھر ہے جہاں وہ گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کرے گی، گھر سے باہر بوقت ضرورت نکلے گی، اور مسجد میں بھی اگر جانا چاہتی یے تو اجازت ہے، انہیں روکا نہیں جاسکتا.. 
 
کچھ سمجھدار احناف کو اسکا احساس بھی ہوچکا ہے، ان کے بیانات بھی آچکے ہیں، لیکن یہ لوگ نماز کے اوقات سے ہٹ کر جمعہ یا اتور کے دن بیان سننے کیلئے عورتوں کو مساجد بلارہے ہیں 
مطلب یہ کہ عورتوں کو جس مقصد سے مسجد جانے کی اجازت ہے اس پر پھر بھی عمل نہیں کریں گے...؟ 
حکم تو یہی ہےکہ اگر کوئی عورت نماز پڑھنے کیلئے آنا چاہتی ہے تو اسے آنے دیں، حدیث کا ما حصل تو یہی ہےکہ، عورت کو مسجد لانے کا حکم نہیں ہے بلکہ اگر کوئی آنا چاہے تو اسے روکا نہ جائے۔۔ 
فقہاء کے ایک طبقے نے فتنہ کے گمان کی وجہ سے عورتوں کے مساجد کی حاضری ممنوع قرار دیا، اسکی وجہ سے برصغیر میں عورتوں کا رشتہ مساجد سے پوری طرح منقطع ہوگیا۔اور ایسا منقطع ہوا کہ اب عورتوں کے مساجد میں حاضری کو برصغیر کی مذہبی پیشوائیت کے نزدیک اسلام میں دخل اندازی کے طور پر دیکھا جارہا ہے.....!! 
اصل مسئلہ فقہی اختلاف ہے، اگر خواتین مکمل شرائط کے ساتھ مساجد میں آنا شروع ہو گئی تو پھر ان مسلک کمزور نہیں ہو جائیگا اور بزرگوں کی بزرگی اور ان کے تقدس میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی..
بہت سے فقہی مسالک کے متاخرین علماء و فقہاء نے صریح نصوص کی روشنی اور حالات کے مدنظر اپنے ہی مسلک کے متقدمین کی آرا سے متعدد مرتبہ اختلاف کیا ہے لیکن ہم ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو تالے لگاکر تقلید جامد سے باہر نکلنا نہیں چاہتے...!!
اچھا عورتوں کے مساجد میں آنے سے روکنے کے حوالے سے تین دلیلیں بہت کثرت کے ساتھ دی جارہی ہیں۔
1۔ عورتوں کی نماز ان کے گھر میں افضل ہے
2۔ حضرت عمرؓ نے عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیا تھا
3- سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ کے الفاظ کہ : جو کچھ عورتوں نے اب کرنا شروع کردیا ہے ، اگر اللہ کے رسول ﷺ اسے دیکھ لیتے تو انہیں مسجد جانے سے روک دیتے
سوال: 1۔  کیا رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے بعد کہ’’ عورتوں کے لیے ان کی نماز ان کے گھر میں نماز زیادہ افضل ہے‘‘عورتوں نے مسجد جانا ترک کردیا تھا؟
سوال: 2- کیاحضرت عمرؓ کے پابندی لگانے کے بعد عورتیں مسجد نہیں جاتی تھیں؟
سوال:3- کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ نے اپنے زمانے میں عورتوں کو مسجد آنے پر پابندی لگائی؟ 
اگر تینوں سوالوں جوابات نفی میں ہیں... اور عورتیں پھر بھی مسجد جایا کرتی تھیں، پھر ان دلیلوں کو پیش کرکے مکمل ممانعت کا حکم لگانا کہاں تک درست ہے۔
اور ام المؤمنين کا مقصد عورتوں کو مسجد آنے سے روکنا نہیں ، بلکہ مسجد آتے وقت خوش بو لگانے اور بناؤ سنگھار کرنے سے روکنا تھا، اگر انہیں مسجد سے روکنا مقصد ہوتا تو ضرور ان سے اس کی صراحت منقول ہوتی ، بلکہ ان کا عمل اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے، جبکہ وہ خود برابر نماز باجماعت کے لیے مسجد جاتی رہیں اور انھوں نے اپنے خاندان کی لڑکیوں اور دوسری خواتین کو کبھی مسجد جانے سے نہیں روکا
بات دراصل یہ یہ ہےکہ اجازت اور ممانعت  دونوں حالات کے اعتبار سے ہونی چاہیے، اگر کسی محلے اور مسجد کا ماحول اور انتظام بہتر اور قابل اطمئنان ہے تو اجازت ہونی چاہیے، لیکن جن گاؤں دیہات اور محلوں اور مساجد میں نظم نہیں ہے اور حالات سازگار نہیں ہیں تو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پھر اس کے بعد بھی عورتوں کا مسجد آنا یا نہ آنا خود عورتوں کے اپنے اختیار، آزادی اور سہولت کے پیش نظر ہونا چاہیے۔
بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ ہمیں عورتوں کے لیے اپنے محلوں کی مساجد کا ماحول سازگار بنانا چاہیے، اختلاط سے بچنے کا اہتمام اور انتظامات ہونے چاہیئں۔
اس میں دقت کی کیا بات ہے ، میری سمجھ میں یہ نہیں آتا۔
حالات سخت فساد آمیز ہیں، لیکن ذرا دیکهیے اسی فساد زدہ ماحول میں مسلم بچیاں اور جوان لڑکیاں تعلیم کے لیے روزانہ اسکولس، کالجس اور مدارس جاتی ہیں، اور اگر نہ جائیں تو حضرات علمائے کرام ہی ترغیب دیتے ہیں کہ بچیوں اور لڑکیوں کی تعلیم کی فکر ضرور کریں کہ لڑکوں کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جب کہ لڑکیوں کی تعلیم خاندانوں اور نسلوں کی تعلیم وتربیت کا سامان ہے،.....
اس کے علاوہ مسلم خواتین کا بازار وغیرہ جانا اور بذریعہ ہوائی جہاز، بس وٹرین سفر کرنا بهی اب عام معمول ہے، اور ان امور میں فتنے کی وجہ سے ممانعت کا فتوی کبهی بهی کانوں میں نہیں پڑتا، دینی جلسوں اور بیانات میں خواتین کو یہ کہہ کر بلانا بهی اب عام ہے کہ :"خواتین کے لیے پردہ کا معقول انتظام ہے". لیکن مسجد حاضری کا مسئلہ آتے ہی یہ "فتنہ" برآمد ہوجاتا ہے، اور وہاں "پردہ کے معقول انتظام" کے ساتھ بهی حاضری ممنوع رہتی ہے، خدا جانے یہ کیسا فتنہ ہے جو اسکول، مدرسے، بازار، اسٹیشن، بس اسٹینڈ، ہوائی اڈے یا جلسہ گاہوں میں نہیں پایا جاتا، صرف خانہء خدا میں ہی پایا جاتا ہے...!!؟؟
الداعی : محمد شعیب اکمل
.




No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner