. *اللہ کے ولیوں کی آزمائش ایسے بھی ہوتی ہے*
صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
*مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ*
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ :
میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔
(صحيح البخاری، ٥٠٩٦)
صحیح مسلم میں ایسے ہی ملتے جلتے الفاظ ہیں، جس میں فرمایا گیا کہ.. تم عورتوں کے فتنے سے بچو ، کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے رونما ہوا!
.
واضح رہے کہ فتنہ کے معنیٰ آزمائش اور امتحان کے بھی آتے ہیں، اسی لیے امام غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
*الصبرُ على لسانِ النساءِ ممّا يُمتَحَنُ بهِ الأولياء*
ترجمہ : "عورتوں کی زبان پر صبر ان چیزوں میں سے ہے جس سے اللہ کے ولیوں کو آزمایا جاتا ہے۔"
[إحياء علوم الدين، جلد ۲، صفحہ نمبر ۴۹]
*قَلَّ اَحَدٌ مِنَ الْاَوْلِيَاءِ اِلَّا وَهُوَ تَحْتَ حُكْمِ امْرَأَتِهِ تُؤْذِيْهِ بِلِسَانِهَا وَاَفْعَالِهَا*
ترجمہ : "اکثر اولیاء ایسے گزرے ہیں کہ وہ اپنے بیویوں کے حکم تلے دبے رہتے تھے، وہ ان کو اپنی زبان اور حرکتوں سے تکلیف پہنچاتی تھیں۔"
[لواقح الأنوار القدسية في بيان العهود المحمدية، صفحہ نمبر ۳۳۱]
.
اس طرح کی اور کئی مثالیں کتب میں ملتی ہیں کہ بڑے بڑے اولیاء کو کس طرح ان کی بیویوں نے تکلیف پہنچائی۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اللہ کے سچے ولیوں کی بیویاں ان کی سچی کرامتوں کا بھی مذاق بنانا شروع کردیتی تھیں.. بعض اللہ والے بزرگ بلیوں کو شوق سے پالا کرتے تھے، وہ بزرگ اپنی پالتو بلیوں کو پیار سے کھلانے پلانے پر بھی ان کی بیویاں صرف بلی پیار سے کھلا پانی پلانے پر اپنے شوہر سے کئی کئی مہینے بات کرنا چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ نیز بہت تکلیفیں "اولیاء" کو ان کی بیویوں سے ملی ہیں۔
ایک بزرگ کی کرامت تھی کہ شیر پر سواری کرتے تھے اور ہاتھ میں سانپ کا کوڑا ہوا کرتا تھا ایک دفعہ مرید کو گھر بھیجا کے کھانا لے آو مرید نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بزرگ کی بیوی آئی اور اپنے شوہر کو برا بھلا کہا کہ وہ نالائق ہے فلاں فلاں تو مرید واپسی ہوا اور بزرگ سے کہا پیر صاحب اپکی بیوی تو بہت زیادہ بدتمیز ہے آپ اس کو طلاق کیوں نہیں دے دیتے تو انھوں نے کہا بیٹا مجھے جتنی بھی کرامتیں ملی ہے اس کی بدولت ملی ہے میں اس کی باتوں پر صبر کرتا ہوں تو اللہ نے مجھے یہ مقام دیا ہے...
.
ایسے ہی ایک بزرگ حضرت مرزا مظہر جان جاناں بہت ہی نازک مزاج اور صفائی پسند انسان تھے، صفائی سے متعلق ذراسی بھی نامناسب بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فرش پر تنکا پڑا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
ایک دن آپ کے جائےنماز کے نیچے کاغذ کا ٹکڑا آگیا۔ جب آپ جائے نماز پر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے
" ارے غلام علی! (آپ کے خادم خاص) دیکھ تو آج زمین اونچی ہوگئی ہے یا آسمان نیچے آگیا ہے "
جب جائے نماز ہٹا کر دیکھا گیا تو ایک کاغذ کا ٹکڑا نکلا..
اس نازک مزاجی کے باوجود آپ اپنی بیوی کی ہر حرکت اور ہر بات کو برداشت کر لیتے تھے۔ اور جو کچھ وہ کہتی آپ سن کر خاموش ہوجاتے اور کچھ جواب نہ دیتے آپ کا ایک پٹھان مرید تھا، ایک دن خادم موجود نہیں تھا تو اس پٹھان کو گھر پر کام کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ حضرت مرزا صاحب کی بیوی کسی بات پر خفا ہوئی اور پوچھا :
یہ کام تم نے ایسا کیوں کیا ؟
پٹھان نے کہا :
"حضرت نے ایسا فرمایا تھا "
انہوں نے کہا :
*"تیرے حضرت کی ایسی کی تیسی....!!!"*
اور پھر حضرت یعنی اپنے شوہر کو طرح طرح کے گالیاں دیتے ہوئے کوسنا شروع کردی۔
.
پٹھان سے نہ رہا گیا اور کہنے لگا :
"شرم نہیں آتی اس قدر بڑے بزرگ کو ایسا کوستی ہو...!!"
اس پر وہ اور بھی بگڑیں اور بہت شور مچایا۔ یہ سن کر حضرت مرزا صاحب باہر آئے اور پٹھان سے کہا :
"چپ چپ کچھ نہ کہو ،خاموش رہو"
پٹھان نے کہا :
" حضور ! آپ کو گالیاں دیتی ہے "
فرمایا : "کچھ فکر نہیں بیوی کی اس سخت مزاجی کی وجہ سے تو میں نوازا گیا ہوں ، اگر یہ نا ہوتیں تو مجھ پر یہ عنایات نہ ہوتیں..!!
.
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام بھی اپنی بیوی کی طرف سے آزمائے گئے.. ان کی بیوی بھی حضرت لوط علیہ السلام سے مختلف نظریہ اور سوچ رکھتی تھی۔ اور حضرت لوط علیہ السلام کی تعلیمات کا انکار کرنے والوں میں سے تھی۔ مگر وہ زندگی میں اس وقت تک ساتھ رہے جب تک اللہ تعالی کی طرف سے فیصلہ نہ آ گیا اور موت نے ان کو جدا کر دیا۔
قرآن حکیم میں بہت ہی حکمت اور دانائی کی باتیں ہیں۔
کیا کبھی سوچا ہے ہم نے؟؟
ایسے واقعات سے ہمیں کیا سمجھ میں آتا ہے؟؟
وہ نبی تھے جانتے تھے کہ ان کی ازواج صاحب ایمان نہیں پھر بھی رشتہء ازدواج نبھایا۔
.
سیدنا ابراہیم علیہ السلام، جنہیں خلیل اللہ کہا جاتا ہے... خلیل کا معنیٰ بہت ہی گہرا اور کبھی نہ ساتھ چھوڑنے والا دوست...
اور سنت الٰہیہ یہ ہے کہ جو اللہ رب العزت کا جتنا گہرا دوست بننے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اتنا زیادہ آزماتے رہتے ہیں ، یہودی روایت کے پس منظر میں ہمیں یہ بات ملتی ہےکہ ابراھیم علیہ السلام کو ہر طرح سے آزمایا گیا.. یہاں تک کہ بیویوں کے ذریعے بھی.. جب حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کو شدید غم ہوا کیوں کہ ابراہیم علیہ السلام کا کوئی فرزند ان کے شکم سے نہیں تھا، پھر وہ حضرت ہاجرہ کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تکلیف پہنچانے لگی تو ابراہیم علیہ السلام نے جب اس کی بارگاہ خداوندی میں شکایت کی تو انہیں حکم آیا کہ اسماعیل علیہ السلام اور حضرت حاجرہ کو حضرت سارہ سے علیحدہ کر دو.......
عربوں کی ایک قدیم کہاوت ہے کہ :
*النساء يغلِبنَ الكرامَ، ويغلِبُهُنَّ اللئامُ*
ترجمہ : شریف الطبع انسانوں پر عورتیں غالب رہتی ہیں، جب کہ کم ظرف اور کمینے مرد عورتوں پر غالب رہتے ہیں.
کہاوت کی بلاغت کو سمجھنے کیلئے عربی زبان کی گہرائی و گیرائی اور فصاحت و بلاغت سے واقفیت رکھنے والے اسکی مزید تشریح معلوم کرسکتے ہیں ، ترجمہ میں ان تمام چیزوں کا احاطہ ممکن نہیں.
.
اگر عورت بد زبان ہو یا مرد پر حاوی ہونے کی کوشش کرے بعض مرد حضرات، جواب میں میں مارتے پیٹتے بھی ہیں (جو کہ نہیں کرنا چاہئیے) تو ایسی عورتیں آگے اور زیادہ بدزبانی کرنے لگتی ہیں۔ وہ مار کھا کر بھی خاموش نہیں ہوتیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر زبان بند کر لیں گی تو انکی ہار ہو جائے گی۔
ایسی بدقسمت عورتیں اور مرد قبر تک لڑتے ہی رہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ اگر اپنا رویہ بدلا تو اسکا مطلب انکی ہار ہے...! درحقیقت انسان صرف اپنے آپکو بدل سکتا ہے، کسی دوسرے کو بدلنا ممکن نہیں، اگرچہ وہ اسکی لائف پارٹنر ہی کیوں نہ ہو..
.
حالانکہ اسلاف کے اقوال ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ، سب سے بہتر عورت وہ ہے جو نرم چال اور نرم گفتگو والی ہو، صفائی پسند اور دل کی پاک ہو، جو زمانے کے خلاف اپنے شوہر کا ساتھ دے اور اپنے شوہر کے خلاف کسی کا ساتھ نہ دے۔
قرآن میں ازدواجی معاملات میں بے وفائی ، دغا بازی، حرص پسندی اور تہمت دھرنے کا مرتکب جس صنف کو بتلایا گیا ہے وہ مرد نہیں عورت ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور عزیز مصر کی بیوی زلیخا کی فطرت میں یہ تمام باتیں جمع ہیں۔ زلیخا کی فطرت عین ایک مشرک معاشرے کی عکاس ہے جہاں پر ایک طرح کی دیوثیت کا بھی رواج ہو۔
اس کو خاوند کی عزت کا خیال نہیں، وہ حرص کی دیوانی ہے اور اپنے سٹیس کی عورتوں میں خود نمائی کی طالب، اور سب سے بدترین پہلو یہ ہے کہ وہ بوقت ضرورت تہمت لگانے سے بھی نہیں ڈرتی اور یہ برائیاں ایک مشرک معاشرے میں پیدا ہوجانا عام ہیں جیسے کہ اب ہم مغرب میں دیکھ رہے ہیں، اور وہ معاشرہ بھی اس حد تک عورتوں سے دبا ہوا ہےکہ باوجود اسکے اس کی تہمت و جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ہی قید میں ڈالتا ہے!
.
یہ تہمت والا معاملہ اب تو بہت عام ہوچکا ہے تہمت کے سچا ہونے کےلیے کافی ہے کہ ایک عورت اسے لگا رہی ہے اس کے پیچھے چاہے کچھ اور مقاصد ہوں اور اگر الزام جھوٹا بھی ثابت ہوجائے تو کوئی نہ کوئی تاویل نکال کر مرد کو سزا ضرور دینی ہے!
آجکل کے مسلمان گھرانوں میں یہاں تک تعلیم یافتہ اور دینی شعور رکھنے والے گھرانوں میں بھی دیکھ لیں، کوئی عورت اپنے بھاوج پر جھوٹی تہمت لگارہی، تو کوئی عورت اپنے نند پر جھوٹی تہمت لگارہی ہے، یہاں تک کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہنیں اپنے بھائیوں پر الزامات اور جھوٹی تمہیں لگاتی پھر رہی ہیں، جبکہ بھائی بہن کا رشتہ سب سے پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے۔
بھائی کتنا بھی بدمعاش اور بد اخلاق کیوں نہ ہو اسکا سب سے زیادہ دفاع بہن کرتی ہے، وہ کسی کے منہ سے اپنے بھائی کی برائی سننا ہی نہیں پسند کرتی... لیکن آج کل یہ فیمنزم نے عورتوں کو بگاڑ کر اتنا بےلگام کردیا ہےکہ آج کل کی بہنیں ہی اپنے سگے بھائیوں کی غیبت تو دور کی بات ہے جھوٹے الزامات، جھوٹی تہمت اور بہتان لگاتی پھر رہی ہیں، اور گلی گلی اسکا ڈھونڈورا پیٹتی پھررہی ہیں۔
.
عورتوں کے چالاکیاں اور مکر کی تفصیل جاننے کے لیے تفاسیر کی کتابیں نکال کر سورۃ یوسف آیت نمبر ٢٨، کا مطالعہ کرلیجیئے بات سمجھ آجائے گی..
*"اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ"*
تم عورتوں کی مکاریاں بڑی ہی سخت مکاریاں ہیں۔
بالیقین ان عورتوں کے مکر بہت بڑے ہیں
اور اس کے بالعکس نیک عورتوں کے لیے اسلامی عورتوں کے لیے حضرت مریم علیہ السلام اور ملکہ بلقیس، امہات المومنین اور صحابیات ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اب ایسی عورتیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیی..
.
ایک اعرابی نے کہتا ہے کہ :
مجھے شیطان سے زیادہ عورتوں سے خوف آتا ہے کیونکہ اللہ نے سورت النساء میں
شیطان کے بارے میں کہا ہے کہ :
*انّ کیدالشیطان کان ضعیفا*
(سورۃ النساء:۷۶)
ترجمہ : (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔
اور سورۃ یوسف میں ہے
*"اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ"*
واقعی تم عورتوں کی مکاریاں (چالیں) بڑی ہی سخت ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان وہ لڑائی کبھی نہیں جیت سکتا، جس میں دشمن اس کے خود اپنے گھر کی عورتیں ہوں، چاہے وہ بیوی کی شکل میں ہو، بہن یا پھر کسی بھی خونی رشتہ دار کی شکل میں... سب نے آپسی مفادات کی خاطر رشتے ناطوں سے ایک دوسرے کا دشمن بنایا ہوا ہے
آجکل گھروں میں ہونے والے نوے فیصد فتنوں اور جھگڑوں کی اصل وجہ عورت ہی ہے... یہی وجہ ہے کہ عربی اور انگلش کی کتابیں عورتوں کے مکر و فریب کے واقعات سے بھری پڑی ہیں، سب عورتیں ایسی نہیں ہوتی، لیکِن عموماً عورتوں کے اندر مکر و فریب مردوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اور اگر دقیق نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے، کہ واقعۃً عورتیں اپنے مکرو فریب میں مردوں سے کہیں زیادہ ہیں
تاریخ کا مطالعہ کرو تو بھی یہ بات سامنے آجاتی ہےکہ کس طرح عورتوں نے بڑے بڑے وزراء اور امراء کو اپنی چالاکیوں کے ذریعے اپنے دام میں پھنسا کر اُن سے راز اگلوائے، اور اُنہیں موت کے گھاٹ اتروادیا اور حکومتیں تک تباہ کروادیں
.
ایک کہاوت تو مشہور ہے کہ
*"عورت کا مایا دیو نہ پایا"*..
ویسے بھی مرد کتنا بھی سخت مزاج کیوں نہ ہو، اسکے دل میں کہیں نہ کہیں عورت کے لیے ایک سافٹ کارنر موجود رہتا ہے، اور آج کل کی عورتیں اسی سافٹ کارنر کا بہت زیادہ غلط فائدہ اٹھا کر کسی بھی شخص پر بہتان یا الزام لگاکر پھنساتی ریتی ہیں، اس موضوع پر کتنی فلمیں، کتنے ڈاکیومنٹریز موجود ہیں، یونیورسٹیوں تک میں ایسے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں..
اب حال ہی دیکھ لیجیئے ہمارے اٹاوہ کے بےباک خطیب جرجیس سراجی صاحب والا معاملہ، ان کو کیسے پھنسایا گیا... اس ایک داعی خود پروفیسر طارق رمضان جو کہ آکسفورڈ میں اسلامیات کے پروفیسر تھے، ان کے اوپر بھی دو دو ریپ کے الزام لگے، اور بھی ایسے کئی بےقصور داعیانِ اسلام کو پھنسا کر جیل بھجوایا گیا.. اور بھی بہت سے واقعات ہیں طوالت تحریر سے بچتے ہوئے اُن سے احتراز کر رہا ہوں
.
عموماً ایک نیک انسان کی زندگی میں آزمائشیں ہر طرح اور ہر طرف سے آتی ہیں... لیکن اکثر ایسا ہوتا ہےکہ اسکی اپنی عورتوں کی طرف سے آنے والی آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں.. اور بعض اوقات وہ اس میں پھنس کر رہ جاتا ہے....
اسی لئے امام سفیان الثوری رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ :
*"لا يذوق العبد حلاوة الإيمان حتى يأتيه البلاء من كل مكان"*
️ تاريخ بغداد (٥٤٥/٧)
ترجمہ : آدمی ایمان کی حلاوت تب تک نہیں چکھ پاتا جب تک کہ اُس پر ہر طرف سے آزمائشیں نہ ٹوٹ پڑیں!
.
عبدالملک بن عمیر رحمه الله یہاں تک فرماتے ہیں کہ :
"جب عورت بڑھاپے کو پہنچتی ہے تو اس کی زبان تیز اور بداخلاقی بڑھ جاتی ہے جبکہ مرد عُمر رسیدہ ہو تو اس کی رائے پختہ ، سختی ختم اور اخلاق اچھا ہوجاتا ہے۔"
(تنبيه المغترين للشعراني رحمه الله : ١٠٥)
عورتوں کی مکاریوں اور چالبازیوں کو سنانے کے بعد بدمعاش قسم کے ایک مرد کی بھی کہانی سن لیں.. بیلنسنگ کے لیے....
عرب ملک کا ایک سچا واقعہ ہے ایک عرب نوجوان جو کہ سعودی برٹش بینک میں ملازم تھا، اس نے اسی بینک میں جاب کرنے والی اپنی کولیگ لڑکی سے دوسری شادی کی۔
بوقت نکاح طے یہ پایا کہ گھر کا کرایہ اسکی دوسری بیوی دے گی، باقی دوسرے اخراجات کے لئے شوہر اور دوسری بیوی کے ذمہ آدھے آدھے.. کیونکہ اس عرب نوجوان کے ذمہ پہلی بیوی کے بھی اخراجات تھے.. جوکہ کوئی جاب نہیں کرتی تھی...
اس عرب کی اپنی کولیگ سے دوسری شادی اسی شرط پر ہوگئی اور سلسلہ کامیابی سے چلتا رہا۔ 25 برس بعد جب شوہر کا انتقال ہوگیا تو انکشاف ہوا کہ گھر اسکے شوہر کا ذاتی تھا اور وہ ظالم تواتر سے ہر سال کرایہ بھی بڑھاتا تھا۔
🤭🤭🤭🤭
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
No comments:
Post a Comment