بین المسالک ... سلیقہء اختلاف

.
بین المسالک ... سلیقہء اختلاف
اہل علم کے درمیان رائے میں اجتہادی اختلافات متقدمین سے چلے آرہے ہیں ... اور اہل علم کے درمیان اجتہادی اختلافات کا پایا جانا عقل و فہم کے مختلف ہونے اور فکری سطح کے درمیان فرق کا فطری نتیجہ ہوتا ہے.... لیکن انتہائی افسوسناک اور غیر فطری بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے اجتہادی اختلافات کو لےکر ہم جھگڑوں اور دشمنیوں کا سبب بنا لیں، قطع تعلقی کی آگ بھڑکانے والی چنگاری بنا لیں.
جن کے پاس صحیح علم ہوتا ہے وہ اپنے علم کے مطابق اختلاف بھی کرتے ہیں اور اپنی رائے بھی پیش کرتے رہتے ہیں ، کیونکہ انہیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں میں اختلاف کا پایا جانا ایک ناگزیر چیز ہے. وہ اللہ رب العزت کے اس فرمان پر ایمان ویقین رکھتے ہیں کہ :
لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
(هود : ١١٨)
اگر آپ کا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک امت بنا دیتا لیکن لوگ اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے. 
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہمارے اجتہادی مسائل میں اختلافات ہونے کے باوجود بھائی بھائی بن کر رہیں جیسا کہ اپنے دور میں امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک بندے سے کہا تھا 
میرے بھائی! آپ کے ساتھ میرے اختلاف کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ میں آپ کو ناپسند کرتا ہوں یا آپ کے عمل کو حقیر سمجھتا ہوں یا آپ کی رائے کو معیوب قرار دیتا ہوں، میرے بھائی میں آپ سے محبت کرتا ہوں. ہم لوگ ہمیشہ رہیں گے تب بھی ہمارے درمیان رائے کا اختلاف رہے گا. 
آپ کے ساتھ میرا اختلاف ہونے کے سبب نہ تو آپ کے لیے میری عزت اچھالنا درست ہو جاتا ہے ، نہ میری غیبت حلال ہو جاتی ہے اور نہ مجھ سے قطع تعلقی جائز ہو جاتی ہے.  
امام شافعی رحمہ اللہ کی اس نصیحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے آپ کی اعلی ظرفی تب ہی نظر آتی ہے جب آپ اپنے جذبات قابو میں رکھ کر آپ سے نطریاتی اور اجتہادی اختلاف رکھنے والے کو بھی وہ حق دیں جو اسے قانون، شریعت اور فطرت نے دیا ہے۔
بے شک آپ دوسرے کا نظریہ نہ مانیں.. مگر کم از کم آپ کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے بولنے کا حق تو دیں... پھر اسکے اپنے پیش کردہ نظریات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش ضرور کریں.. 
لیکن کیا کیا جائے ہماری اس تنگ نظری کا...!!! 
کہ ہم ہمارے سے اجتہادی اختلاف رکھنے والوں کو بولنے کی اجازت دینا تو دور کی بات ہے اسکے نظریات کو سننا تک نہیں چاہتے..! اور اگر کوئی سنانا چاہیں تو ہم انہیں اپنی مساجد کا ممبر و محراب استعمال کرنے نہیں دیتے اور تو اور... اگر کوئی بندہ ہم سے اجتہادی اختلاف رکھنے والوں مساجد کو چلا بھی جائے تو ہم اسے جانے سے بھی روکنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں، اور اگر کوئی بندہ کمزور ہوتو اسے ڈراتے ہیں دھمکاتے ہیں.. 
یہ کونسا اسلام ہے بھائی.. اور کیسی مسلمانیت ہے جو ایک دوسرے کو سننے تک گوارا نہیں کرتے..!! 
خیر یہ تو متعصب عامیوں کا رویہ ہے، اب بات کرتے ہیں فارغین مدرسہ کی علمی خیانتوں کی.. ان سے اجتہادی مسائل میں اختلافات رکھنے والوں کے معاملے میں... 
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ فقہی اور اجتہاد مسائل کے اختلافات کی بنیاد پر اپنا ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں، پھر ایک دوسرے پر نکیر زیادہ تر اختلافی اور اجتہادی مسائل کو لے کر کرتے ہیں، ان مسائل پر مضامین اور کتابیں بھی لکھتے رہتے ہیں اور پھر ان مسائل کو اپنے خطبات میں زیر بحث لاتے ہیں جن مسائل میں سب کی رائیں درست ہوسکتی ہیں یعنی صرف فضیلت پر بحث کی جاسکتی ہے ان مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ بدترین تشدد کا برتاؤ اختیار کرتے ہوئے اس پر صحیح اور غلط کا پیمانہ فٹ کردیتے ہیں
جہاں گفتگو کا لہجہ بے حد نرم ہونا چاہئے وہاں نہایت سختی کا اظہار کیا جاتا ہے، جن موضوعات پر خالص علمی اور تحقیقی گفتگو ہونی چاہئے انہیں انتہائی جذباتی رنگ دے دیا جاتا ہے۔
کچھ فارغین مدرسہ مخالف مسلک کی آراء نقل کرنے میں مکمل تحقیق سے کام نہیں لیتے 
تو کچھ مخالف مسلک کے قول کو بیان کرنے میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں.. تاکہ وہ اپنے مخالف پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے اور لوگوں کو اسکے خلاف کرسکے
تو کچھ مخالفین مسلک کے اختلاف کو بیان کرتے ہوئے دقت نظری سے کام نہیں لیتے.
یہ وہ لوگ ہیں جو مخالف کی طرف ایسا قول منسوب کرتے ہیں جو اس نے کہا نہیں ہوتا بلکہ وہ گمان کرتے ہوئے ( اسکی طرف) لزوم کی بنیاد پہ (منسوب کردیتے ہیں).
کچھ لوگوں کو مد مقابل کی دلیل کے سامنے اپنا نظریہ کمزور ہوتا دکھائے تو سامنے والے کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیتے ہیں.
یہ بدترین علمی خیانت ہے اور یہ اللہ سے ڈرنے والے اور محققین کا طریقہ نہیں ہے
لہذا کوئی بھی کتاب کسی مسلک کے رد میں ہو اس پہ جب تک اعتبار نہ کریں تب تک آپ اس مسلک کی پوری کتاب کا مطالعہ نہ کرلیں کیونکہ ہوسکتا ہےکہ مخالف نے عبارات کاٹ کر یا غلط بیانی کذب بیانی سے انکی طرف غلط قول منسوب کردیا ہو تو جب آپ اسکی تائید کریں گے تو اللہ کے حضور آپکا بھی محاسبہ ہوگا اور قیامت کی ہولناکیوں کا کسکو علم نہیں... 
افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے پر نکیر زیادہ تر ان اختلافی، فروعی اور اجتہادی مسائل کو لے کر ہوتی ہے جن مسائل میں اختلافات کم کرنے کے لیے افہام و تفہیم کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے، ویسے بھی بہت سارے مسائل میں اختلاف معمولی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اور اگر ان اجتہادی اختلافات کو ختم کیا جانا ناممکن ہے تو کم کرنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے نا....!!
دوسری بات یہ کہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے، سب وشتم اور طعن وتشنیع سے پرہیز کرکے ایک دوسرے کو برے القابات سے بلانا چھوڑ دیں تو بین المسالک رواداری کی فضا ہموار ہوگی نا.. یہی ہمارے دین کی تعلیم ہے۔ ہمیں تو یہی سوچنا ہے کہ اپنے اختلافات کے باوجود ہم کیسے ایک دوسرے سے مل کر رہ سکتے ہیں۔ ہمارے دین نے ہماری اس معاملے میں کیا رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں علمائے کرام کی ذمہ داری کیا ہے؟ 
قرآن پڑھیے، مومن کے اوصاف کیابیان کیے گئے ہیں؟
*أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ*
مومن کے لیے یہ نرم ہوتے ہیں اور اہل کفر کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ 
(سورة المائدة، آیت نمبر ٥٤)
مومن کے اوصاف میں یہ ہے کہ مومن وہ ہے جو دوسرے مومن کے لیے نرم رہے اور اہل کفر کے لیے سخت رہے۔ صحابہ کرام کے اوصاف میں بیان کیا گیا
*أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُم*
آج ہماری فولادیت کہاں نظر آتی ہے؟ آپسی مسائل ہوتے ہیں تو ہم بڑے سخت ہوجاتے ہیں۔مسلکی نظریات کو لے کر بہت جذباتی ہوجاتے ہیں.. مسلک کی تبلیغ کو دین کی تبلیغ سمجھتے ہیں اور مسلک کے دفاع کو دین کا دفاع سمجھتے ہیں۔ ہماری یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔ ہمارے جو اجتہادی اختلافات ہیں وہ بہت معمولی ہیں ۔ دس بیس فیصد.. اور ہمیشہ یہی مسائل موضوع بحث رہتے ہیں، باقی جو اسی سے نوے فیصد متفق علیہ مسائل ہیں، جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتاہے۔ کیوں ایسا ہے؟ جب ہمارا اتفاق اتنے مسائل میں ہے اور اختلاف چند مسائل میں تو پھر یہ اختلاف ہی ہمیشہ کیوں غالب رہتا ہے اور یہی ہمارے ذہنوں پر اور ہمارے معاشرے پر کیوں مسلط رہتا ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دونوں کے درمیان سو سے زیادہ مسائل میں اختلاف تھا، غور کریں، سو سے زیادہ مسائل میں اختلاف تھا، لیکن کیا دونوں ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے؟ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے؟ نہیں، ان حضرات کی سوانح میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے تھے: 
*’’کنیف ملیء علما وفقھا آثرت بہ اھل القادسیۃ‘‘*
عبد اللہ بن مسعود علم وفقہ کا پٹارہ ہیں، یہ علم وفقہ کی گٹھری ہیں، اس گٹھری کو میں اہل قادسیہ کے حوالے کرتا ہوں۔ 
سوچیے سو مسئلہ میں اختلاف لیکن اس کے باوجود تعریف کررہے ہیں۔ ادھر دوسری طرف عبد اللہ بن مسعود کا حال یہ تھا کہ حضرت عمر کے انتقال کے بعدکہا کرتے تھے کہ
*’’رحم اللہ عمر، کان للاسلام حصنا حصینا...‘‘* اللہ رحم کرے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر، یہ اسلام کا ایک مضبوط قلعہ تھے ، اب وہ قلعہ منہدم ہوگیا۔
ایسے ہی کچھ اجتہادی مسائل میں اختلافات کو لے کر ہم نے اپنے اپنے مسالک بناکر اسکی دفاع ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں.. خیر کوئی بات نہیں آپ اپنے مسلک پر قائم رہیں، اپنے موقف پر ڈٹے رہیں لیکن دوسرے کا احترام کرنا بھی تو سیکھیں، دوسروں کو بولنے کا موقع تو دیں... 
لیکن ہمارا معاملہ پورا الٹا ہوچکا ہے.... ہم نے اپنے مسجدوں کو بانٹ رکھا ہے.... ہم نے اپنے مدرسوں کو بانٹ رکھا ہے.... ہم نے اپنی کتابوں کو بانٹ رکھا ہے.... ہم نے اپنے فقہاء کو بانٹ رکھا ہے.. ہم نے اپنے اکابرین کو بانٹ رکھا ہے.. ہم نے اپنے علماء کو بانٹ رکھا ہے (اپنے نظریے سے اختلاف رکھنے والے علماء کو ہم سننا تک گوارا نہیں کرتے) 
یہ کیسی بندر بانٹ ہے یارا...! 
اپنی اپنی مساجد کو اپنے مسلک کے دائرے میں محدود رکھنے والے، اپنے زیرِ قبضہ اداروں کو اپنے مسلک اور جماعت کے نظرے کے حصار میں باندھے رکھنے والے، دراصل کم علمی اور  ایک بےاعتماد اور خوف زدہ نفسیات کا شکار ہیں۔
یاد رکھیں اور خوب یاد رکھیں جب تک مختلف مسالک سے وابستہ ہر مسلمان کی اسلامی حمیت.....، مسلکی حمیت پر غالب نہیں آئے گی اس وقت تک وہ سچا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
لوگوں کے مابین اپنے اپنے مسلک کے اداروں سے حصول علم اور اپنے اپنے مسلک سے وابستگی کی وجہ سے فقہی جزئیات میں اختلافات کا ہونا طبیعی چیز ہے، کیونکہ لوگ علم ، قوت، فہم و اداراک اور عزائم وارادوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتےہیں۔ البتہ یہ اختلاف اس وقت انتہائی مذموم ہوجاتا ہے جب یہ باہمی عداوتوں اور دشمنیوں کاسبب بن جائے۔
دینی معاملات میں نظریات اور مسلک کی بنیاد پر اختلاف رائے رکھنا اور چیز ہے لیکن اپنے مخالف کو طرح طرح کے القابات سے نوازنا، اس سے برے سلوک کو جائز سمجھنا، اس سے اچھے اخلاق سے پیش نہ آنا اور اپنے مساجد کے دروازے اپنے مخالف مسلک والوں کے لئے بند کرنا ، یا انہیں اپنی مسجد کا ممبر و محراب استعمال کرنے کی اجازت نہ دینا.... جیسے معاملات بذات خود بہت سی برائیوں کی جڑ ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان  کے درمیان مسلکی اور نظریاتی اختلافات ہیں ۔ بلکہ ہندوستانی مسلمانوں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اندر بین المسالک سلیقہء اختلاف نہیں ، اور میں سمجھتا ہوں، مسلمانوں کو اور بالخصوص فارغین مدرسہ کو بھی اتحاد کے بےعمل اور جذباتی بیان بازیوں سے زیادہ بین المسالک اختلافات کے آداب سیکھانے کی ضرورت ہے. بین المسالک رواداری کے اخلاق اور اصول سکھانے کی ضرورت ہے
جب تک دینی مدارس میں مختلف مکاتب فکر کی کتابیں نہیں پڑھائی جائے گی، جب تک ان مکاتب فکر کی اچھائیوں کا اعتراف دل کھول کر نہیں کیا جایے گا اور جب تک ان مکاتب فکر کی غلطیوں پر سنجیدہ اور خالص علمی تنقید کرنے کا طریقہ طلباء کو نہیں بتایا جائے گا اس وقت ہندوستان میں بین المسالک رواداری کی فضاء عام ہو ہی نہیں سکتی۔
کسی مفکر نے کیا خوب لکھا کہ، مسلکی اختلاف کو مٹانے کی ہر کوشش اختلاف کو اور بڑھادیتی ہے، جبکہ اختلاف کو گوارا یا برداشت کرنے کی پالیسی عملاً اختلافات کو ختم کرکے بین المسالک اتحاد کی راہ ہموار کرتی ہے
اسکا مطلب یہ ہے کہ، قوم کو اتحاد کے بجائے اختلاف کے ساتھ شعوری ارتقاء کی ضرورت ہے ۔ شعوری ارتقاء خود بخود اتحاد کی راہ ہموار کرے گا ۔ جب ہم مسلکی اختلاف کو برداشت ہی نہیں بلکہ خوش آمدید کہنے کے لئے آمادہ رہنے لگیں... تو سمجھو کہ ہم شعوری ارتقاء کی طرف گامزن ہیں۔
.
نصوص سے استدلال کی صورت میں مختلف رائے اور نظریات پیش کرنے کے لیے ہوتے ہیں تھوپنے کے لیے نہیں، بتانے کے لیے ہوتے ہیں لازم کرنے کے لیے نہیں، ایک دوسرے کی کمیوں کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کے لیے نہیں......
الغرض مختلف مسالک کے معتبر علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ سلفی، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، حنفی اور احناف کی شاخیں جیسے دوبندی، بریلوی، تبلیغی اور جماعت اسلامی... یہ سب کے سب اہل سنت و جماعت کا حصہ ہیں اور ان کی عمومی تکفیر و تفسیق درست نہیں ہے۔ 
مشہور فلاسفر سقراط لکھتا ہے کہ : 
"درخت کا وہ پتہ جو پت جھڑ میں بھی نہ گرے وہ دوسرے پتوں کی نظر میں خائن ہوتا ہے، درخت کی نظر میں وفادار ہوتا ہے اور موسم کی نظر میں سرکش ہوتا ہے" 
معلوم ہوا ہر شخص چیزوں کو اپنے زاویہ سے دیکھتا ہے، اگر ہم میں سے ہر ایک اس حقیقت کو سمجھ لے کہ دنیا میں مختلف مزاجوں کا وجود ایک فطری ضرورت ہے اور ہر ایک کو اپنے مزاج کی فطری خصوصیات کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے تو ہمارے درمیان بین المسالک اجتہادی مسائل میں اختلافات کے باوجود... سلیقہء اختلاف کی راہ ہموار ہوگی.. 
الداعی : محمد شعیب اکمل
.





No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner