غیبت ، چغلی اور بہتان..!! سماج میں پھیل چکے اس ناسور سے اپنے آپ کو کیسے بچائیں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم:
سورة الهمزة میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
*وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ*.. بڑی خرابی ہے ہلاکت ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو ۔
یہ چھوٹی سی صورت ہم روز اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں، لیکن اس صورت کی پہلی آیت میں اللہ رب العزت ہم سے کیا فرما رہے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے....!!!
اس آیت میں کس قدر شدید وعید آئی ہےکہ کسی کے عیوب جاننے کے لیے اس کے ٹوہ میں لگے رہنا یا چھپ چھپ کر دوسروں کی باتیں سننے کی کوشش کرنے والوں کےلیے ویل ہے یعنی تباہی ہے بربادی ہے ہلاکت ہے...
بعض لوگوں میں یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ جان بوجھ کر کسی کے عیوب کو جاننے کی کوشش اور ٹوہ میں لگے رہتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لئے بہت سخت قسم کے وعیدیں ہیں۔
.
ویسے بھی ہم میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے ، گناہ ہرایک سے سرزد ہوتا ہے ، سارے لوگوں میں عیوب ونقائص ہیں۔ جب کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں تو پھر ہم دوسرے کے عیوب کو تلاش کرکے اسے دوسروں کے اگے بیان کرکے (غیبت کرکے) انہیں لوگوں کے سامنے رسوا کرنے کی کیوں کوشش کرتے رہتے ہیں...!!!؟؟
.
عموماً لوگ اپنی جھوٹی برتری دکھانے کے لئے تو کبھی دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے یا کبھی دنیاوی منعفت کے حصول کے لئے یا کسی سے حسد جلن یا دشمنی کے باعث اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے لوگوں کے عیوب بیان کرتے پھرتے ہیں، بعض خاندانوں میں تو کچھ لوگوں ایسے رہتے ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی اپنے خاندان کے صاحب ثروت لوگوں کی جی حضوری اور اپنے ہی خاندان کے لوگوں کی عیب جوئی کرنے پر منحصر ہوتا ہے، ایسے لوگوں سے گھبرانا نہیں... کیونکہ دنیا میں کبھی کوئی آپکے کردار یا آپ کے عیوب، آپ کے نقائص یا آپ کے گھریلو نجی معاملات کو اُٹھا کر چوک میں بھی لٹکا دے ، تب بھی اپ اطمینان رکھیں... آپ کا کچھ نہیں بگڑنے والا.. کیوں کہ عزت اور ذِلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے
.
کہتے ہیں کہ کسی کا مال چھپانا آسان ہے لیکن کسی کا راز چھپانا بہت مشکل ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ :
*مَن سترَ مُسلِمًا سترَهُ اللَّهُ في الدُّنيا والآخِرةِ*
(ابن ماجه)
ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔
حافظ ابن حجر نے کہتے ہیں کہ پردہ پوشی سے مراد ہے کسی نے کوئی برائی دیکھی تو اسے لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے ۔
کسی کا راز ایک امانت ہے اس کا بیان کرنے والا خائن ہے اور جو خائن کی سزا ہے وہ راز افشاء کرنے والے کو بھی ملے گی۔
.
کہاجاتا ہے یہ فطرت عورتوں میں بہت زیادہ پانی جاتی ہے ، لیکن آجکل کے مرد بھی اس معاملے عورتوں کو پیچھے چھوڑ دیئے ہیں... سارے چائے کی ہوٹلیں، گلیوں کے چبوترے، سیاست کے شوقین یوا نیتاؤں کی بیٹھکیں... غیبت چغلی اور بہتان کے اڈے بن چکے ہیں، جہاں پر بیٹھ کر لوگوں کے عیبوں، برائیوں اور رازوں کو مرچی مسالہ لگاکر بیان کرنا لوگوں کا محبوب مشغلہ بن چکاہے، ان کی نظر میں غیبت، چغلی اور بہتان تراشی کوئی گناہ ہی نہیں......!!! کچھ بندے تو ایسے ہوتے ہیں، جو اپنے دوستوں کو چائے پلا پلا کر لوگوں کے عیوب اور برائیاں بیان کرتے رہتے ہیں...
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
”بازاروں میں بیٹھکیں لگانے سے گریز کرو، یہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہیں۔“
(العزلة والانفراد لابن أبي الدنيا : ٢٦ - صحيح)
.
بعض لوگ کسی معاملے کی تحقیق کرے بغیر ایسے ہی سنی سنائی باتیں آگے بڑھادیتے ہیں، ایسے لوگوں کو احادیث میں *سرٹیفائیڈ جھوٹا* کہا گیا ہے... اور بعض لوگ حقائق جاننے کے باوجود دوسرے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے یا ان سے اپنی دشمنی نکالنے کے لئے یا حسد جلن کی بناء پر یا پھر ایسے ہی مزے لینے کی خاطر دوسروں کے عیوب کو بڑھا چڑھا کر اس میں مرچی مسالہ لگا کر سرے عام ان کی عزت اچھالتے رہتے ہیں ، دوسروں کے عیوب کو بڑھا چڑھا پیش کرنا، یا کسی کا عیب جاننے کے بعد کسی کے جذبات کو بھڑکانے یا آپس میں کسی کو بدگمان کرنے یا آپس میں ایک دوسرے کو لڑانے کی خاطر لوگوں کے عیوب ظاہر کرنا چغلی اور بہتان کے زمرے میں اتا ہے..
.
ایسے لوگوں کے بارے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
*مَن قالَ في مؤمنٍ ما ليسَ فيهِ أسكنَهُ اللَّهُ رَدغةَ الخبالِ حتَّى يخرجَ مِمَّا قالَ*
(أبي داود)
ترجمہ: جس نے کسی مومن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو اﷲ اسے جہنمیوں کی پیپ میں ڈالے گا ( وہ اسی کا مستحق رہے گا ) حتیٰ کہ اپنی بات سے باز آ جائے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ :
*لا يدخل الجنة نمام*
(متفق عليه)
چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
*المشاؤن بالنميمة، المفسدون بين الأحبة، الباغون للبراء العيب*
(صحيح الأدب المفرد و حسنه الألباني رقم: ٢٤٦)
ترجمہ :سب سے بدتر انسان وہ ہے جو چغلی کرتا ہے، محبت و الفت کرنے والوں کے درمیان جھگڑا کراکر فساد برپا کراتا ہے
.
یحی بن اکثم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "چغل خور جادوگر سے بھی زیادہ خطرناک یا بڑا فسادی ہوتا ہے کیونکہ جو فساد ایک جادوگر ایک سال میں نہیں کر پاتا وہ چغل خور ایک دن میں کردیتا ہے"
ایک دوسرے قول میں چغل خور کے عمل کو شیطان سے بھی برا عمل قرار دیا گیا ہے کیونکہ شیطان تو لوگوں کو وساوس یا تخیلات کے ذریعہ بھٹکاتا اور ان میں فساد پیدا کرتا ہے مگر ایک چغل خور معاشرہ میں سامنے ہو کر ظاہرا فساد برپا کرتا ہے۔"
.
الغرض غیبت ، چغلی اور بہتان جیسی خبیث خصلتوں سے متعلق سینکڑوں احادیث ہیں ان سب کو ایک مضمون میں نہیں لکھا جاسکتا ہے.. ہمیں یہاں صرف اصل ہدف جاننا ہے اس کے لئے اشارۃً مذکورہ نصوص کافی ہیں اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ کسی کے راز کی حفاظت کا طریقہ کیا ہے ؟
.
بہت ہی آسان طریقہ ہے اپنی زبان کی حفاظت کریں اور لوگوں کے معاملات میں خاموشی اختیارکریں ۔ ترمذی میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : *مَن صَمت نَجا*... جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالیا۔
خاموشی بہت ہی عمدہ علاج ہے، اسی لئے زبان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے ، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
*من توكَّل لي ما بين رجليه وما بين لحييه توكَّلْتُ له بالجنةِ*
(صحيح البخاري)
جس نے مجھے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان (شرمگاہ) اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) کی ضمانت دی تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
.
ایک مرتبہ دوران سفر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا : "اس کو قابو میں رکھو.. "حضرت معاذ نے عرض کیا : "اے اللہ کے نبی! کیا جو باتیں ہماری زبانوں سے نکلتی ہیں، ان پر ہماری گرفت ہوگی؟"
آپ ﷺ نے فرمایا :
*يَا مُعَاذُ، وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ في النَّارِ عَلىَ وُجوهِهِم إلاّ حَصَائِدُ ألْسِنَتِهِم*
ترجمہ : اے معاذ! لوگ جہنم میں منہ کے بل گرائے جائیں گے ، اس کا سبب اس کے علاوہ اور کیا ہوگا کہ ان کی زبانوں نے اس کی کھیتی کاٹی ہوگی؟
(ترمذي و ابن ماجہ)
.
اب جس کسی نے دانستہ یا غیر دانستہ کسی کا راز فاش کردیا یا کسی کے عیب کو ظاہر کردیا یا کسی کی غیبت کردی یا کسی پر بہتان لگادیا... تو اسے چاہئے کہ اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے... اور اس بندے سے بھی معافی مانگے جسکی اس نے غیبت کی... ساتھ ہی اگلے سے کسی اور سے اس کے عدم اظہار کا وعدہ لے.... نیز الزامی امر ہوتو اس کی تردید کرے اور حقوق کا معاملہ ہو تو تصفیہ کرے ۔
.
اسی طرح کسی کے حق میں گواہی طلب کی جائے تو جو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے بیان کرے ، یہاں پر چھپانا جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
*وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ*
(البقرۃ : 283)
ترجمہ : اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے۔
.
کبھی کسی بامقصد مصلحت کے تئیں... یا آپ پر جھوٹا الزام لگ جائے یا جھوٹ کے ذریعے آپ کو کسی مصیبت میں پھنسایا جارہا ہوتو... ایسے وقت میں الزام لگانے والے کے عیوب اور اسکی برائی کو بیان کیا جاسکتا ہے جیساکہ یوسف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیوی نے برائی کا الزام لگایا تو یوسف علیہ السلام نے اس عورت کی پول کھولتے ہوئے کہا،
اللہ کا فرمان ہے :
*هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي*
(يوسف: 26)
ترجمہ : یوسف نے کہا یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی ۔
.
ایسا کوئی آدمی جو فرد وسماج کے لئے خطرہ کا باعث ہو، اس کی شرانگیزی کسی شخص کو یا پورے سماج کو نقصان پہنچا رہی ہوتو (مثال کے طور پر رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں خرد برد کرنے والے)... ایسے شرانگیز آدمی کی حقیقت سے پردہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں تاکہ اس کے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھا جاسکے ۔
.
فقہاء کرام نے اور بہت سے مقامات پر کسی کی برائی بیان کرنے کی اجازت دی ہے...
جیسے ناانصافی کی صورت میں کسی فریاد رس کے پاس اپنی فریاد کرنا..
کسی کی اصلاح کی نیت وغرض سے اس کےسرپرست (اس کے استاد یا والد وغیرہ جس سے اصلاح کی امید ہو) کے پاس اس کے عیب کو بیان کرنا، جائز ہے...
کسی رشتہ نکاح کیلئے، یا شراکت داری، یا امانت رکھنے کے لیے ، یا رفاقت سفر کے لیے کسی کے بارے میں استفسارکرنے پر صحیح صورتِ حال بتا دینا جائز ہے۔
دینداری کا لبادہ اوڑھ کر مضرت (دینی و دنیوی) پہچانے والے کے شر سے لوگوں کو باخبر کرنا.....
بدعتیوں کی بدعت کو واضح کرنا اور فاسدالعقیدہ آدمی کی بد عقیدگی کو بیان کرنا تاکہ لوگ بچیں۔ یہ کام تو باعث ثواب ہے۔
.
ایسے شخص کی بھی پردہ پوشی نہیں کی جائے گی جو دوسروں کے سامنے برائی کا اظہار کرے.. مثلاً ڈھٹائی سے لوگوں کے سامنے شراب پئے یا زنا کرکے مزے لیکر لوگوں میں بیان کرے ، اس نے تو خود اپنی معصیت ظاہر کردی ۔ یہ ایسا بدنصیب اور بد بخت شخص ہے جس سے اللہ تعالی معافی کو بھی اٹھالیتا ہے ۔
.
ہمارے اسلاف کے سامنے جب کسی کی برائی یا غیبت کی جاتی تھی وہ کیا جواب دیتے تھے... اس پر بھی غور فرمالیں....
ایک شخص نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ فلاں آدمی نے آپ کو گالی دی ہے۔ تو انھوں نے فرمایا : وہ اس کا صحیفہء اعمال ہے، جس طرح چاہے اسے بھرے۔
.
ایک شخص نے حضرت وہب بن منبہ سے کہا کہ فلاں نے آپ کو گالی دی! تو انھوں نے جواب میں فرمایا : کیا شیطان کو تیرے علاوہ کوئی پیغامبر نہیں مل سکا؟
.
ایک آدمی نے حضرت علی بن الحسین رحمہ اللہ سے کہا کہ فلاں نے آپ کو برا بھلا کہا اور آپ کی غیبت کی۔ انھوں نے جواب دیا : اس نے جو کچھ کہا، اگر وہ درست ہے تو اللہ مجھے معاف فرمائے اور میرے بارے میں جو کہا وہ غلط ہے، تو اللہ اس کو معاف فرمائے!
.
ایک شخص نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا کہ فلاں نے آپ کو گالی دی ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا : اس نے مجھے تیر مارا جو مجھے نہیں لگا، تو تم نے وہ تیر لا کر کیوں میرے سینے میں گاڑ دیا؟؟
.
ایک شخص نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے سامنے چغلی کھائی تو انھوں نے فرمایا : تم نے تین جرم کئے، میرے اور میرے بھائی کے درمیان دوری پیدا کی، میرے خالی دل کو مشغول کیا اور میرے دل میں اپنے مرتبے کو خراب کیا!
.
ایک شخص نے امام شافعی رحمۃ اللہ سے کہا کہ فلاں آپ کے بارے میں بد گوئی کر رہا تھا۔ تو آپ نے جواب دیا : اگر تم سچ کہتے ہو تو چغل خور ہو اور اگر جھوٹ بولتے ہو تو فاسق ہو۔ چنانچہ وہ شخص شرمندہ ہو کر چلا گیا۔
.
حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے کہا:
مجھے پتا چلا ہے کہ آپ میری غیبت کرتے ہیں؟
فرمایا : میری نظر میں ابھی تمھاری یہ حیثیت نہیں کہ تمھیں اپنی نیکیوں پر حاکم بناؤں ...“
.
الغرض غیبت سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ.. اگر کوئی بندہ تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو سب سے پہلے.. اس بندے کو اس قبیح فعل سے روکیں، اس کی سرزنش کریں، آخرت کے عقاب سے ڈرائیں، کیوں کہ اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے. پھر اس کے بعد اس خبر کی تحقیق کرے بغیر اس کا یقین نہ کریں ...
جس شخص کے متعلق اس چغل خور نے آپ کو بد ظن کرنے کی کوشش کی ہے آپ اس سے حسن ظن قائم رکھیں..
.
پھر اس چغل خور کی وجہ سے آپ تجسس اور ٹوہ میں نہ پڑیں، اور نہ ہی آپ چغل خور کا نام لے کر اس کے سامنے کہیں کہ یہ شخص تمہاری برائی کر رہا تھا، تو یہ بھی غیبت ہوگی، البتہ اگر آپ معاملہ کی تحقیق بغرض اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو بغیر نام لئے معاملہ کی تحقیق کریں.
اگر ہم ان امور کو انجام دیں کسی حد تک اپنی زندگی میں غیبت پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں
ان شاء اللہ.
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
No comments:
Post a Comment