شب برات کیا ہے. ؟

.
*"شب برات کیا ہے؟"*

للمولف علامہ حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی
بہت سے لوگوں نے مجھے پندرہ شعبان سے متعلق کچھ لکھنے کو کہا... میں کچھ لکھنے کا ہی سوچ رہا تھا کہ ہمارے فہد حارث بھائی کی *شب برات کیا ہے* کتاب پر تبصرے والی تحریر سامنے آگئی، تو میں نے سوچا یہی قارئین کے ہدیہ کردیتا ہوں.. فھد حارث بھائی بھی کا تعارف کئے دیتا ہوں، یہ ماہر تاریخ دان ہے ، فن اسماء الرجال میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور حارث پبلشنگ کے اونر بھی ہیں 
آج ۱۵ شعبان ہے۔ اس مناسبت ۱۵ شعبان کی فضیلت سے متعلق تمام رویات ضعیف ہونے سے متعلق کچھ عرض کرنے سے بہتر ہےکہ اس بابت کسی کتاب پر تبصرہ کرکے  ہدیہ قارئین کردیا جائے تاکہ قارئین کتاب کے مندرجات سے خود کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ ویسے تو شب برات کے موضوع پر کئی کتب تصنیف کی گئی ہیں، جس میں اس رات کے وضعی ہونے سے متعلق عمدہ و مفصل کلام کیا گیا ہے لیکن اس بابت مجھے جو کتاب سب سے زیادہ پسند آئی وہ علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی صاحب کا کتابچہ "شب برات کیا ہے؟" جو کہ ان کی ۵۷۸ صفحات پر مشتمل مفصل کتاب "شب برات ایک تحقیقی جائزہ" کا  ۷۸ صفحات پر مشتمل خلاصہ ہے۔ کاندھلوی صاحب  کی یہ مفصل کتاب بھی ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر اس سے زیادہ شاندار اور مفصل کتاب میری نظروں سے نہیں گزری جس میں شعبان سے متعلق ایک ایک روایت پر کلام کیا گیا ہے جس نے اس کتاب کی صخامت کو تقریباً ۶۰۰ صفحات تک پہنچادیا ہے۔ اس ہی کتاب کا خلاصہ زیر تبصرہ کتاب "شب برات کیا ہے؟"۔  یہ کتابچہ اپنی ابتدائی شکل میں *"فضائل شعبان المعظم"* کے نام سے چھپا تھا  جس کو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، علامہ محمد یوسف بنوری اور دوسرے علمائے اہلسنت کی تائید حاصل ہوئی تھی۔
کتاب *"شب برات کیا ہے؟"* پر مشہور حنفی عالم جناب علامہ شیخ محمد جعفر شاہ پھلواری کی تقریظ موجود ہے جس میں انہوں نے اس کتاب پر علامہ کاندھلوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے علم الحدیث میں ماہر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ کتاب ہٰذا میں  کاندھلوی صاحب سب سے اول مبحث  مرکب " شب برات"  کے معنی پر بحث کرتے ہوئے لاتے ہیں جہاں وہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں اس نام سے کوئی رات موجود نہیں بلکہ یہ فارسی اور عربی کو ملا کر بنائی گیا ایک مرکب اضافی ہے جس میں شب فارسی کا لفظ اور برات عربی کا لفظ ہے۔ اس کے بعد کاندھلوی صاحب برات کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ یہ لفظ برات بری سے بنا ہے جس کا مصدر متعدی تبرا ہے اور عربی زبان میں یہ تمام الفاظ نفرت و بیزاری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس بابت وہ قرآن و حدیث سے کئی مثالیں دیکر اپنی بات سمجھاتے ہیں اور آخر میں اصل مدعا سامنے رکھتے ہیں کہ دراصل یہ رات اہل روافض کی ایجاد کردہ ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ ان کے بارہویں امام مہدی اس رات کو پیدا ہوئے تھے، اسی رات کو غار میں پوشیدہ ہوگئے اور اسی رات کو  دوبارہ ظہور فرما کر اس دنیا کو اہلسنت کے "ناپاک" وجود سے نجات دلائیں گے ، ابو بکرؓ و عمرؓ کو ان کی قبروں سے نکال پر انہیں پھانسی پر لٹکائیں  اور تمام بے دینوں یعنی اہلسنت مسلمانوں کو قتل کرینگے۔ گویا یہ رات اصل میں تبرا اور اہلسنت سے بیزاری والی رات ہے۔
نعوذبااللہ
صفحہ ۱۱ پر کاندھلوی صاحب سورۃ الدخان کی آیت نمبر ۲ تا ۵ پر  مفصل کلام کرکے ثابت کرتے ہیں کہ  ان آیات میں جس رات کو لیلۃ المبارکہ کہا گیا ہے وہ ۱۵شعبان نہیں بلکہ رمضان کی لیلۃ القدر ہے۔ سورۃ الدخان کی یہی تفسیر مفتی محمد شفیع صاحب نے ابھی اپنی تفسیر القرآن میں کی ہے۔ کاندھلوی صاحب نے اس سلسلے میں سلف کے نام بھی پیش کئے ہیں جو کہ لیلۃ المبارکہ سے مراد لیلۃ القدر لیتے تھے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا عبداللہ بن عمرؓ، امام سعید بن المسیب ؒ، امام مجاہد، امام حسن بصری، ضحاک، زید بن اسلم، قتادہ، ابن العربی مالکی، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن دحیہ، ابن حجر، ابن کثیر، قرطبی، امام نووی اور دوسرے کئی اہل علم ۔
آگے جاکر کاندھلوی صاحب سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے اس قول پر کلام کرتے ہیں جو کہ عموماً اس رات کے قائلین پیش کرتے ہیں کہ جس میں مذکور ہے کہ لیلۃ المبارکہ ۱۵ شعبان کی رات ہے  اور جرح و تعدیل کی روشنی میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے اس قول کی نسبت کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو دوسری روایت پیش کی جاتی ہے وہ عثمان بن المغیرہ کی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ شعبان سے شعبان تک موتوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے جبکہ یہ روایت مرسل ہے کیونکہ عثمان بن المغیرہ چھوٹے طبقہ کے تابعی ہیں اور اس سلسے میں حافظ ابن کثیر کا  تائیدی قول پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس روایت کے باقی رواۃ پر مفصل جرح پیش کرکے اس روایت کا وضعی ہونا ثابت کرتے ہیں۔
اس کے بعد علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلوی اس سلسلے میں پیش کی جانے والی سب سے مشہور روایت  بعنوان "بقیع کی کہانی" پیش کرتے ہیں جو کہ ترمذی اور ابن ماجہ میں پائی جاتی ہے اور سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ نصف شعبان کی رات کو اللہ تعالیٰ بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ اس روایت پر نہایت دلچسپ درایتاً بحث کرنے کے ساتھ ساتھ کاندھلوی صاحب  لکھتے ہیں کہ اس روایت کی بابت خود امام  ترمذی نے تصریح کردی ہے کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف کہتے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ یہ روایت حجاج بن ارطات یحیٰ بن ابی کثیر سے نقل کر رہا ہے حالانکہ اس نے یحی ٰسے زندگی میں ملاقات تک نہیں کی۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یحیٰ اس روایت کو عروہ سے نقل کر دیتے ہیں۔ اور یحٰی نے عروہ سے بھی  کبھی ملاقات نہیں کی۔ اس طرح یہ روایت دو مقام سے منقطع ہوئی اور منقطع روایت محدثین کے نزدیک ناقابل قبول ہے اور جو روایت دو جگہ سے منقطع ہو وہ  محدثین کے نزدیک معضل کہلاتی ہے اور جو انتہائی شدید قسم کی ضعیف بلکہ مردود ہوتی ہے۔ اسی لئے حافظ  بدر الدین عینی حنفی، ابن دحیہ اور ابن العربی مالکی نے اسے موضوع قرار دیا۔ 
صفحہ ۲۶ پر کاندھلوی صاحب ابن ماجہ میں مروی سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت پر کلام کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی صبح کو طلوع فرماتا ہے اور کینہ پرور کے علاوہ سب کی مغفرت کردیتا ہے۔ جبکہ اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن لہیعہ مختلف  فیہ ہے جبکہ دو راوی ضحاک بن عبدالرحمان اور عبدالرحمٰن بن عرذب مجہول ہیں سو گویا جرح و تعدیل کے میزان میں یہ روایت بھی سخت ضعیف قرار پاتی ہے۔ ساتھ وہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے مروی ایک روایت پر بھی کلام کرتے ہیں جو کہ متن میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت کے موافق ہے  تاہم اس میں اللہ کے طلوع ہونے کا نہیں آسمان دنیا پر نزول فرمانے کا ذکر ہے۔ اس روایت کے منکر ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ ابن عدی نے اس روایت کو اپنی  کتاب "الکامل" میں عبدالملک بن عبدالملک کی  منکرات کے تحت نقل کرکے منکر قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی کاندھلوی صاحب اسماء و الرجال سے متعلق معلومات بھی بہم پہنچاتے ہیں اور یہی اس کتاب کی سب سے خوبصورت بات ہے کہ اس میں روایات پر بحث کرتے ہوئے کاندھلوی صاحب علم الحدیث سے متعلق بھی گرانقدر معلومات نہایت دلچسپ پیرائے میں ہدیہ قارئین کرتے جاتے ہیں۔ روایات پر کلام کے ذیل میں قارئین جابجا یہ معلومات پائینگے۔
صفحہ ۴۳ پر زبان زد عام روایت یعنی "رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ  اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے" پیش کرکے اس پر مفصل کلام کیا گیا ہے اور اس کا ضعف واضح کیا گیا ہے۔ پھر آگے جاکر "شعبان کے روزے" سے متعلق ابن ماجہ اور ابن حبان میں سیدنا علیؓ سے مروی روایت کہ "جب نصف شعبان ہو تو رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو" پر کلام کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرۃ المدنی ہے جو کہ از حد ناقابل اعتبار ہے۔ صفحہ ۵۲ سے لیکر  صفحہ ۶۹ تک کاندھلوی صاحب مختلف محدثین و فقہاء کے  تبصرے نقل کرتے ہیں جو کہ اس روایت کے وضعی ہونے کی بابت کلام پر مشتمل ہیں۔ اس سلسلے میں کاندھلوی صاحب ابن قیم، علامہ محمد طاہر علی الحنفی پٹنی، قاضی ابو بکر ابن العربی المالکی، ملا علی قاری، امام محمد بن الجزری، امام عینی ، عبدالرحمٰن مبارکپوری  اور علامہ شبیر احمد عثمانی وغیرہ کا کلام نقل فرماتے ہیں  اور ساتھ ہی اس رات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کی ابتداء اور اہل روافض کے اس رات کے ایجاد کرنے سے متعلق کلام کرتے ہوئے  ایک مختصر لیکن نہایت دلچسپ تاریخی خاکہ پیش کرتے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ یہ رات بنی بویہ کے دور میں اہل روافض نے ایجاد کی اور وہاں سے یہ اہلسنت میں در آئی۔
اسی طرح  کتاب کے آخر میں "آتش بازی یا آتش پرستی" کے عنوان سے بحث قائم کرکے کافی دلچسپ کلام کرتے ہیں اور اس رات آتش بازی کی اصل غرض و غایت سے عوام کو روشناس کرواتے ہیں کہ یہ آل مجوس سے مستعار لیا اہل روافض کا طریق ہے۔ پھر "حلوے مانڈے" کی سرخی قائم کرکے اس سلسلے میں پیش کی جانے والی مختلف روایات پر کلام فرماتے ہیں۔ المختصر کاندھلوی صاحب کی یہ کتاب  نہ صرف ۱۵ شعبان سے متعلق روایات پر مفصل کلام کرتی ہے بلکہ اپنے اندر انتہائی وقیع تاریخی معلومات بھی رکھتی ہے جس کا مطالعہ  اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ہر  طالب علم کو کرنا چاہیئے۔
ذیل میں ہم قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک دے رہے ہیں، جہاں سےیہ کتاب ڈاؤنلوڈ کرکے پڑھی جاسکتی ہے https://jmp.sh/ksRZZal 
تحریر: محمد فھد حارث 
.










No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner