. گمنام بلوچی چرواہا...! سوشیل میڈیا پر وائرل بلوچی بابا پر دلچسپ مضمون


گمنام بلوچی چرواہا...!!

    جب مجھے عمرے کی سعادت نصیب  ہوئی تو مسجد نبوی اور حرم شریف میں ایسے سینکڑوں بد حال عورتوں و مردوں کو دیکھا جن کے چہرے ، کپڑے ، حلیے اس بات پر شاہد تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شائد ساری زندگی پائی پائی اس امید پر جوڑی ہے کہ اللہ کے گھر کی زیارت نصیب ہو ، روضہ رسول ﷺ پر حاضری ہوجائے ۔

عمرے کے دوران حرم شریف میں سعودیہ میں مقیم ایک پاکستانی مزدور ملا جس نے تین سالہ مزدوری میں سے پائی پائی جمع کرکے بمشکل اپنی والدہ کو عمرے کے لیے بلایا تھا اور ان دونوں کے پاس ہوٹل میں رہائش کے لیے اسباب نہیں تھے وہ حرم میں ہی ٹہرے ہوئے تھے ۔ 
ایسے لوگوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ شائد ایسے ہی غربا کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اس دنیا میں اپنے قہر کو روک رکھا ہے...
اب پچھلے دنوں عرب سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکے اس بلوچستان کے رہنے والے ان بزرگوار کی عقیدت و جذبے میں نہ جانے کون سی ایسی تپش تھی کہ اللہ نے اس گمنام بزرگ کو  لاکھوں کا محبوب بنا دیا..!! 
ان بزرگ کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش تو معلوم ہوا کہ وہ ایک گمنام بوڑھا شخص بلوچستان کا رہنے والا ہے، جسے اپنی مادری زبان بلوچی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ آتی تھی، عربی تو کجا اسے اردو تک نہ آتی ہے، اس کی ساری زندگی معمولی اجرت کے عوض دوسروں کی بکریاں چراتے اک جھونپڑی میں گزری تھی۔
جھونپڑی جو اس کی اپنی زمین پر نہ تھی، سردار کی زمین پر مجبور اور موسموں کی شدت سے شرمسار کھڑی  تھی، جھونپڑی بس  ایسی تھی کی آسمان سے ساری دھوپ ، ساری گرمی سردی اور بارشوں کا سارا پانی اس میں سے گزر کے بابا جی پر آ برستا تھا۔ باباجی  مگر اسی میں خوش تھے ، شکوہ کیا ہوتا ہے؟ شائد باباجی  یہ جانتا  بھی نہ تھا، جتنا میسر تھا، اس سے زیادہ کی اسے پروا بھی نہ تھی۔ 

نہ اس بات کی پروا کہ اس کے پاس پکا چھوڑو موسموں سے بچانے والا کوئی کچا کوٹھا تک نہ تھا، نہ اس کا ملال کہ اس کے پاس زیست کرنے کو معمولی سا سامان بھی نہ تھا، نہ اس کی فکر کہ اس کا روزگار بس اجرت پر دوسروں کی بکریاں چرانا تھا،  اس کے سوا کچھ نہ تھا۔
عجیب شخص تھا کہ وہ  بکریاں چرانے کی انبیاء کی سنت پر ہی عمل پیرا نہ تھا، اس کے دل میں ایک اور سنت پر عمل پیرا ہونے کی خواہش بھی چپکے چپکے پل رہی تھی اور بڑھ رہی تھی، وہ آرزو تھی سوہنے رب کا گھر دیکھنے کی آرزو، زیارت بیت اللہ کی سعادت پالینے کی انبیا کی سنت۔ نبی کے شہر سے آنکھیں ٹھنڈی کر لینے کی سعادت کی آرزو..!! 
زاد راہ اس کے پاس کیا ہوتا کہ جس کے پاس زاد زندگی ہی نہ تھا۔ مگر تمنا تھی اور بڑی منہ زور تمنا تھی، وہ بکریاں چراتا رہا، اجرت پر چرائی بکریوں سے اپنے حصے کے بچے وصولتا رہا، جونہی  کوئی ایک اور بچہ اس کے حصے میں آتا، اسے لگتا سوہنے رب کا گھر اس کے نصیبے کے کچھ اور قریب آ لگا ہے۔ وہ ہر ایسے اجرت میں آئے بچے کے ساتھ سوہنے رب کا گھر دیکھنے کی اپنی خواہش  بھی پالتا رہا۔ 
پھر ایک دفعہ جب تن پر اچھے کپڑے نہ تھے، پاؤں میں  مناسب جوتا نہ تھا، جھونپڑی میں موسموں کی شدت روکنے کی موزوں صلاحیت نہ تھی، اس کے پاس بکریوں کی اجرت کے کچھ پیسے جمع ہو گئے۔ تب اس کا چاؤ دیکھا نہ جاتا تھا کہ اس کے دل نے الارم بجایا، سوہنے رب کا گھر دیکھنے کا ٹائم آ گیا۔ 
عشق کے امتحان مگر ابھی اور بھی تھے، ابھی محبوب کے ہاں حاضری کا ٹائم نہ آیا تھا انسانیت پر کورونا  کا امتحان آ گیا تھا۔ اس نے رضا کی گردن جھکائی اور  تمنا بغل میں داب لی، وہ  انتظار کی سولی پہ ٹنگ گیا۔ کورونا گزرا تو در محبوب تک جانے کیلئے زاد راہ اور بڑھ گیا تھا۔ اسی دوران اس کے پاس مگر کچھ بکریاں آگئیں تھیں۔ ان بکریوں کا ، عمر بھر کی جمع پونجی کا، زندگی بھر کی محنت کا اور بھلا کیا مصرف ہو سکتا تھا؟
اس نے بکریاں بیچیں اور در یار دیکھنے کو چل دیا۔ نہ ساتھ کوئی ساتھی  اور نہ رشتے دار،  مگر اس راہ کا ہر مسافر اپنا ہی تو ہوتا ہے۔ ایک تھیلا بغل میں دابے بالآخر اک سویر وہ سوہنے کے مدینے میں کھڑا تھا۔  اسے اپنے نصیبے پر یقین نہ آتا تھا، وہ ڈھلکے کندھوں کے ساتھ بہت آرام سے حرکت کرتا تھا کہ یہ مدینہ تھا، جہاں بڑے بڑے سلاطین  بھی سانس گم کر بیٹھیں، وہ مدینہ! بلوچستان کی اک جھونپڑی کا باشندہ مدینے کی شان دیکھ کے دنگ رہ گیا۔
آہ!  کہاں فقیر عجم اور کہاں سلاطین  عرب..!! 
اسی حیرت میں گم وہ اپنی کل متاع، اپنا جوتے اور جوڑے والا تھیلا بھی گم کر بیٹھا۔ عین یہی وہ لمحہ تھا ،جب کسی نے اسکی ویڈیو بنادی اور عرب و عجم کے سوشل میڈیا پر اسکے چرچے ہونے لگے... جب وہ اپنے تن کے آخری چیتھڑے بھی سوہنے رب کے در پہ گم کر بیٹھا تھا! 
عین اسی لمحے سوشل میڈیا حرکت میں آیا اور 'عجیب نورانی چہرے  والا بزرگ '  صحابہ جیسی سادگی کے نام سے عرب و عجم کے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ گویا عرش سے اس بندے کے قبول عام اور محبوب عوام و خواص ہونے کا اعلان ہوگیا۔ اب خود اسے معلوم نہ تھا کہ وہ جو اپنے تئیں گم ہوا پھرتا ہے، اس سے زیادہ مدینہ اور اہل مدینہ کی  دنیا میں مشہور کوئی نہیں۔
سبھی جانتے ہیں، کوئی تیس لاکھ کے قریب اس بار زائرین ارض مقدس میں تھے، ان میں کروڑ پتی بھی تھے اور ارب پتی بھی... بڑی بڑی مملکتوں کے سربراہ اور جانے کون کون رستم زماں، محدث زماں اور شیوخ الاسلام وہاں موجود تھے، جو بھی تھا گمنام ہی تھا،  یہاں کا مشہور شخص اور زبان زد عام شخص مگر آج کے دن ایک ہی تھا، اور وہ تھا وہ بلوچی بابا جو پندرہ سال سے لوگوں کی بکریوں کے ساتھ اپنی ایک تمنا پال کے یہاں آکے گم ہو گیا تھا۔
پتہ نہیں اس بلوچی چرواہے کا وہ کونسا عمل ہے کہ جو اللہ کو پسند آیا اور راتوں رات اسے  عزت، عظمت کے مینار پر بٹھا کر عرب و عجم میں اتنا نامور کر دیا کہ، عرب و عجم کے سوشل میڈیا پر ہر کوئی اس بابے کا تذکرہ کر رہا ہے..!! عرب کے کئی مخیر حضرات حج پہ بلانے کو اس کے پیچھے پڑے ہیں۔ 
ایک غیر مستند زرائع کے مطابق اس بابے کو اس سال حج پر حج کے ذمہ داروں کی طرف سے مہمان خصوصی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے 
ایسا لگ رہا ہے اللہ رب العزت نے عرب و عجم کے سوشل میڈیا والوں کو یہ ڈیوٹی لگا دی کہ اس بلوچی چرواہے کی  کہانیاں کہیں اور سنیں، سنیں اور سنائیں۔ سارے پڑھے لکھے اک ان پڑھ کی کہانی سنیں اور سنائیں۔
اللہ اللہ! 
جسے چاہا در پہ بلا لیا
جسے چاہا ، اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
الداعی : محمد شعیب اکمل

.

No comments:

Recent Updates

Email subscribe

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner