.
ملت کے سیاسی اور سماجی مسائل کا حل..؟؟
.
کسی بات پر شوہر سے ناراض ہوچکی بیوی غصّے پہ کنٹرول نہ کرتے ہوئے اپنے شوہر سے کہنے لگی
اگر تم مرد ہو تو مجھے
*طلاق دو*
.
اب ایک سیکنڈ بھی میں
تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی....
.
اس کا شوہر خاموشی سے اس کی بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرنے لگا
لیکن بیوی نے پھر کہا
*تم مرد نہیں*
اگر ہو تو
*مجھے طلاق دو*
.
حالانکہ اس کی بیوی نیک پاکباز اور اچھی سیرت والی عورت تھی لیکن یہ سب غصہ کی حالت میں اس کی زبان سے نکل رہا تھا اور اس موقع پر شیطان پوری کوشش میں تھا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے الگ کردے
عورت کا غصہ جب اور بڑھا تو کہا اگر تم مرد ہو تو یہ کرو وہ کرو وغیرہ وغیرہ...
.
شوہر کی خاموشی دیکھ کر بیوی غصہ اور بڑھا.... اور کہنے لگی مجھے ابھی فوراً تمہارا جواب چاہئے اور تم مجھے اسی وقت جواب دو بالآخر آدمی نے مجبور ہو کر ایک کاغذ میں چند سطریں لکھ کر لفافے کے اندر رکھ کر اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا جاؤ
*فی امان اللّٰہ*
.
یہ وہ دروازہ ہے جس سے تم میرے ساتھ آئی تھیں میں نے ثابت کر دیا کہ میں
*ایک مرد ہوں*
تم ابھی اپنے میکے اپنی خوشی سے جاسکتی ہو...
.
عورت نے غصے سے پیر پٹکتے ہوئے اپنا سامان وغیرہ باندھ کر اٹھایا اور اپنے میکے کی طرف چل دی
.
جب یہ بات لوگوں میں پہنچی تو کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکا شوہر تو بڑا نیک، نمازی پرہیزگار اور رحم دل انسان تھا اس نے ایسے اتنی سے چھوٹی بات پر اپنی کے ساتھ ایسا کیوں کیا...؟
اور سب بڑی بات تو یہ ہےکہ تھی یہ بندہ مسلمانوں کے ایک سیاسی جماعت.. مجلس کا سخت حامی تھا اور ساتھ میں نامور اور سرگرم سماجی کارکن تھا...!! ، اور اس بندے کی نظر میں اسکی سیاسی جماعت یعنی مجلس میں شامل نہ ہونے والے مسلمان کی مسلمانیت مشکوک تھی..
اس بندے کا قائد تو اپنے سیاسی جلسوں میں یہاں تک کہا کرتا تھا کہ اسکی سیاسی کو ووٹ اور سپورٹ نہیں کرنے والے مسلمان..... ابلیس، ابوجہل اور ابولہب کی ناجائز اولاد ہیں اور یزید جیسے مردار دل رکھنے والے ہیں....
وغیرہ وغیرہ..
.
خیر...،
ادھر میکے میں اسکی بیوی کے دن گزرتے گئے اور آہستہ آہستہ اس کا دل وہاں گھٹنے لگا اسے تنہائی ستانے لگی تو ایک دن اس نے اپنے شوہر کو چپکے سے فون کیا اور رونے لگی کہا تم میرا سب کچھ ہو میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی
.
تم میرا سب کچھ ہو
میری جان ہو
میری روح ہو
بس تم ہی سب کچھ ہو
وغیرہ وغیرہ
.
آدمی نے جواب دیتے ہوئے کہا
*اُمّ محمد!* تم آخر اب مجھ سے کیا چاہتی ہو؟
بیوی نے کہا میں غلط تھی اور کہا *مانا کہ تم مرد ہو* لیکن میں ایک ناقص العقل عورت ہوں
آدمی نے جواب دیا یہ تو تمہارا مطالبہ تھا جو میں نے پورا کر دیا اور تم مجھے ثابت کرنے دو کہ میں مرد ہوں
.
بیوی نے کہا
*مانا کہ تم مرد ہو*
لیکن میں ایک ناقص العقل عورت ہوں
آدمی نے جب دیکھا کہ عورت اس کے سامنے اپنی بے بسی اور دکھ کا اظہار کر رہی ہے تو اس نے کہا اچھا جاؤ ذرا وہ لفافہ کھول کر دیکھو تو سہی جو میں نے تمہیں لکھ کر دیا تھا
.
عورت فون کو ہولڈ میں رکھ کر اٹھی اور اس لفافے کو کھول کر اس میں موجود کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا
اے میری پیاری *اُمّ محمد!* آپ کے اور میرے درمیان کے معاملات ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے سماجی، سیاسی اور ملی مسائل کا حل طلاق نہیں بلکہ
*"حل صرف مجلس اتحاد المسلمین"*
کو ووٹ اور سپورٹ دینا ہے
😂
.
یہ تھا اصل کاغذ جو اس نے اس وقت بیوی کو دیا تھا
لیکن بیوی نے سمجھا تھا کہ اس میں
*طلاق طلاق طلاق*
لکھا ہوگا
جب بیوی نے کاغذ پڑھا تو رونے لگی اور روتے ہوئے کہا
ووٹ صرف ہاتھ کے نشان کو (یعنی کانگریس کو)...
چاہے تم مجھے تین نہیں بلکہ ایک ساتھ اکھٹی تیس طلاق دو..
😂
.
اس عورت کی دادی وہیں قریب بیٹھی ہوئی تھی..
وہ کہنے لگی نا بیٹا نا...
ہمارے ملک کے مسلمانوں کے سیاسی سماجی اور ملی مسائل کا حل صرف اور صرف اور ٹی آر ایس کو ووٹ دینا ہے.. کیونکہ اسکی دادی کو ٹی آر ایس سے اولڈ ایج پینشن مل رہا تھا..
.
اتنے میں لڑکی کا باپ گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہنے لگا... اماں تم چپ رہو تمہارے کو کچھ بھی نہیں معلوم باہر کیا کیا ہورہا ہے، مسلمانوں پر کتنا ظلم ڈھایا جارہا ہے اور ہم مسلمانوں کے لیے اس ملک میں زمین تنگ ہوتی جارہی ہے..
اب ان حالات میں مسلمانوں کے سماجی، سیاسی اور ملی مسائل کا حل صرف اور صرف کانگریس پارٹی ہے.. اور کانگریس وہ واحد نیشنل سیاسی پارٹی ہے جو ہندوستان میں سیکولرزم کو پھر سے بحال کرسکتی ہے
.
اب اسکا شوہر جو فون پر یہ باتیں سن رہا تھا... کہنے لگا نہیں ماموں جان نہیں.. آپ کی سیاسی جانکاری اور سیاسی بصیرت بہت کم ہے، کانگریس ایک نمبر کی منافق پارٹی ہے ، کبھی بھی اس نے اپنے موقف کو واضح نہیں کیا ہمیشہ مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھا، اتنی بڑی پارٹی ھونے کے باوجود بھی نا کھل کر کبھی مسلمانوں کو سپورٹ کیا اور نا ہی کبھی مسلمانوں کو آگے بڑھنے دیا، اور یہی نہیں کانگریس دور قیادت میں ہی بابری مسجد کو ڈھایا گیا
.
جب سسرے نے اپنے داماد کی یہ باتیں سنیں تو کہا بیٹا!...، گھر آؤ سب مل کر باتیں کرتے ہیں، فون پر یہ باتیں نہیں کی جاسکتی ہیں ویسے بھی تمہاری بیوی کی ناراضگی بھی ختم ہوچکی ہے..
.
شوہر جب سسرے صاحب کے بلاوے پر سسرال پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں پر یہی ٹاپک ابھی تک زیرِ بحث ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور ملی مسائل حل کس سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں ہے...؟
سسرے صاحب پرانے اور پکے کانگریسی تھے، تو ان کی بیٹی یعنی اسکی بیوی بھی اپنے باپ کے ساتھ کانگریس کے تائید میں کھڑی تھی تو اسکی دادی اماں ٹی آر ایس کی حامی، اور یہ صاحب مجلس کے علاقائی فلور لیڈر...
.
گھر میں جب یہ سیاسی بحث بڑھنے لگی تو، سب نے فیصلہ کیا کسی ذی شعور مولوی صاحب سے رجوع کیا جائے...
جب یہ مولوی صاحب کے پاس پہنچے تو مولوی صاحب نے ساری تفصیلات جاننے کے بعد کہا کہ اس طرح تم لوگ آپس میں الجھنے سے ہمارے سیاسی، سماجی اور ملی مسائل کا حل نہیں نکلنے والا ہے،
.
ہاں تم لوگ متحد ہوکر اپنا ووٹ منتشر کئے بغیر ، اپنا ووٹ سپورٹ کسی ایک پارٹی کو کریں تو سیاست کے میدان میں اپنا وزن بھی پیدا کیا جاسکتا ہے اور اپنے سیاسی، ملی اور سماجی مسائل کا بھی نکالا جاسکتا ہے..
لیکن یہی مولوی صاحب اپنے خطبات میں بھاشن دیتے ہیں تو... اپنے مسلک کا پرچار اور کے ان کے فقہی نظریات سے اختلاف رکھنے والے دوسرے مسلک والوں کو اپنی مساجد میں ممبر و محراب استعمال کرنے پر پابندی لگاکر انہیں لادین یا لامذہب کہہ کر ان کی عزت کی دھجیاں اڑا چکنے کے بعد آخر میں آنکھوں میں آنسو بھر کر گڑگڑا کر اتحاد امت کی دعا بھی کرتے ہیں
.
اب ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسلمان فقہی اور اجتہادی مسائل کے اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو اپنی مسجد کا ممبر و محراب استعمال کرنے پر پابندی لگادیں...!! وہ کیسے سیاست کے میدان میں ایک پلاٹ فارم پر متحد ہو کر کسی سیاسی جماعت کو ووٹ کرسکتے ہیں.. جبکہ یہ لوگ انہیں اجتہادی مسائل کے اختلاف پر ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے..!!!.. جب یہ بات باشعور عوام نے محسوس کیا تو چائے کی ہوٹلوں میں چائے پر اسکے چرچے ہونے لگے کہ... آخر ہم مسلمانوں کا سماجی، سیاسی اور ملی مسائل کا حل کیسے نکالا جائے..؟
تو سب نے مل کر یہ طئے کیا کہ ہر گاؤں کی سطح پر مسلکی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر مسلمانوں کا ایک نمائندہ (ٹاؤن پریسیڈنٹ) منتخب کیا جائے، اسکے بعد اپنے سیاسی، سماجی اور ملی مسائل کا حل... اس ٹاؤن پریسیڈنٹ کے زیر قیادت تلاش کیا جائے..
.
تو عوام میں سے کچھ متحرک اور باشعور بندوں نے یہ بات گاؤں کی دینی قیادت اور دانشور طبقے کے سامنے رکھی تو، دانشور طبقہ تو عوام کے ساتھ کھڑا ہوگیا لیکن گاؤں دینی قیادت عوام کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں، پتہ نہیں گاؤں کی دینی قیادت کو زمینی سطح پر ابھرنے والی قیادت اور عوام میں بیدار ہورہی اتحاد کی لہر سے کیا مسئلہ ہے...!!!؟؟؟
.
تو ایسے میں کچھ لوگ مجھ سے پوچھنے لگے کہ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے..
تو میں نے کہا یارا..... میری رائے کی اہمیت اس علاقے میں کوئی نہیں رہتی، جہاں سیاسی قائدین کے اندھ بھگت، دینی قائدین کے مریدین اور صاحب ثروت طبقے کی جی حضوری کرنے والوں کی کثرت ہو..!!
پھر بھی میری رائے بتائےدیتا ہوں.. وہ یہ کہ جو بھی بندہ مسلم سماج میں عملی اتحاد کی کوشش میں کھڑا ہوجائے اور مسلمانوں کے سیاسی، دینی اور ملی مسائل کے حل کیلئے......
*ان شارٹ جو بھی بندہ سچے دل سے ملت کے عملی اتحاد کی کوشش کے ساتھ ساتھ ملت کے اجتماعی مسائل کے حل کےلیے کھڑا ہوجائے گا وہ ساری زندگی ذلت ہی سہتے رہیں گا..!*
.
ویسے بھی بھارت کے مسلمانوں کی اجتماعی حالت بند ڈربے کی مرغیوں کی طرح ہوچکی ہے... جس کا نمبر لگتا ہے وہ کجھ دیر کے لئے سٹپٹاتی ہے اور پھر گردن حوالے کر دیتی ہے ، باقی مرغیاں تھوڑی سی سراسیمگی و حیرانی کے بعد اپنے اوسان بحال کر لیتی ہے کہ گویا ڈربے میں ہی سب خیر ہے...!!
.
*يا ليت قومي يعلمون......!!!*
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
نوٹ : یہ کوئی سیاسی پوسٹ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے گلی کی سیاست میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی گلی کے ابھرتے ہوئے یوا نیتاؤں سے کوئی دشمنی ہے..
یہ صرف طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی گئی ایک اصلاحی پوسٹ ہے
.
No comments:
Post a Comment