.
!!!...ہماری دم توڑتی عیدیں
امام ابن المنير رحمه الله فرماتے ہیں کہ : "عید کے دن عام ایام کی نسبت خوشی منانے کی زیادہ چھوٹ ہے!“
(فتح الباري : ۲٥۹/٣)
.
إمام البشير الإبراهيمي فرماتے ہیں کہ : عید وقت کا ایک ٹکڑا ہے جو غموں کو بھلانے، تکلیفوں سے رخصت لینے اور محنت و مشقت سے بھر پور زندگی میں کچھ آرام کرنے اور خوشیاں منانے کیلیے مختص ہے۔“
(آثار الإمام البشير الإبراهيمي : ٤٧٩/٣)
.
لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ، ہر شخص اندر سے ٹوٹ رہا ہے یا ختم ہورہا ہے..! عیدین کے مواقع پر بھی کوئی دل کھول کر خوشیاں نہیں منارہاہے، کوئی اپنے مرحومین کو یاد کرکے عید کا دن ماتم کی طرح گزرا رہا ہے، تو کسی کے چہرے پر عید کے دن بھی نامعلوم سی اداسی چھائی ہوئی لگ رہی ہے، (غالباً معاشی پریشانیوں اور مہنگائی کے باعث) کوئی نئے کپڑے نہیں سلوارہا ہے تو کوئی اچھے کپڑے جان بوجھ کر نہیں پہن رہا ہے، کوئی عید کے دن بھی بچوں سے محبت اور شفقت سے مل نہیں رہا ہے، تو کوئی عید کے دن بھی اپنوں سے بڑوں کی محبت قبول کرنا نہیں چاہ رہا ہے، تو کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو عید کا دن بھی تنہائی میں گزارنا چاہتے ہیں ، یہاں تک کہ عید کے دن بھی اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے ملنے سے بھی کترارہے ہیں..
.
الغرض عید کا دن بھی حشر کے میدان کی طرح لگ رہا ہے، ہر طرف عجیب سی نفسا نفسی کا عالم ہے یار...!!
اس بے مروتی، نفسا نفسی کے عالم میں، ہمارے ہاتھوں اسمارٹ-فون آگیا.. اس اسمارٹ-فون نے انسانوں کا باطنی سانچہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ زنگ آلود طبیعتیں، نامانوس رشتے، تصنع اور گلیمر کی ماری پُھوکی مبارکیں اس اسمارٹ-فون کے ذریعے ہونے لگی ہیں۔ چند سال کے بعد یہ تہوار محض ایک ڈیوٹی بن جائیں گے، پھر اسے بوجھ سمجھ کر جلد از جلد کندھوں سے اتار کر دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کو ہی عید پکارا اور سمجھا جائے گا۔
.
ویسے عید پر بھرپور خوشی، قہقہے، مسرتیں ، شرارتیں ، شادمانیاں ، سکھ اور چین بچوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں،
صحیحین میں ہے کہ عید کے دن دف بجاکر نغمے گارہی بچیوں کو حضرت ابوبكر رضى الله عنہ نے ٹوکنا چاہا تو نبی کریم صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا ابوبكر انھیں رہنے دو. يہ عيد كے دن ہیں
لیکن اب دف بجاکر عید کی خوشیاں منانا تو دور کی بات ہے... عیدی اور قربانی کے شوق میں ہفتہ ہفتہ منتظر رہنے والے بچے بھی عید کے دن اسمارٹ فون ہاتھوں میں لیئے بڑوں کو کہہ رہے ہیں کہ جو مزہ انسٹا اور واٹس سٹیٹس دیکھ کر سبحان اللہ بولنے میں اور سوشل میڈیا کے ذریعے عید کی مبارکباد دینے میں ہے وہ پرانی نسل کیا جانے۔....
بچوں کی یہ حالت دیکھ کر ایسا لگنے لگا ہے کہ ہماری آنے والی نسل پر ڈپریشن اور انزائٹی جیسی چڑیلوں سوار ہوچکی ہے...!!
.
ہم شاید وہ آخری نسل ہیں جو بے دلی صحیح لیکن پھر بھی عید منا رہے ہیں۔ اس کے بعد ذہنی آسودگی عنقاء ہونے کو ہے۔ خوشی منانے کے رنگ، رونق اور ذوق و شوق، مشینی زندگی سے رخصت لے کر ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہونے اور انہیں خوش کرنے کا شعور، سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے یوں ختم ہو رہا ہے جیسے ملک الموت روح نکال کر لے جا رہا ہو۔
.
ہمارے بچپن میں عید کی تیاریاں دس دن پہلے سے ہی شروع ہوجاتی تھیں.. عید سے تین دن پہلے سے گھر کی مائیں بیسن، بالائیاں اور دیسی ساختہ کریمیں لے کر لڑکیوں کے پیچھے پیچھے ہوا کرتی تھیں۔ کم بختو! ملو اس کو، رنگ نکھرے گا تمہارا، عید قریب ہے۔
لڑکے عید کے دن پچاس سو کے نوٹ لے کر ٹھیلہ بنڈیوں پر جا پہنچتے۔ ہر بھونڈے سے بھونڈے رنگ کی عینک اور گھڑی کو میچنگ کا نام دیا جاتا۔
.
لڑکیوں کیلیے مہندی اور چوڑیاں عید کا پہلا رکن ہوا کرتا تھا۔ اور چاند رات کو گھر میں گرینڈ آپریشن لازم سمجھیے۔ سب پنکھے، جالے، کونے کھدرے، لائبریری، اسٹور، گیراج اور ایسی ایسی جگہوں اور چیزوں کی صفائیاں جنہیں ہم چاند رات میں صفائی کیلیے ہی شرفِ مس و قدوم بخشتے تھے..
.
ہم تو عید کی نماز کے بعد ان کمینے مفاد پرست دوستوں سے بھی گلے مل لیا کرتے تھے جنہیں ہم عید کے علاوہ کبھی ملنا نہ پسند کرتےتھے۔ عید الاضحیٰ کے دن ہماری سب سے بڑی ذمہ داری قصاب کی نگرانی، گوشت بنوانا ، صاف کرنا ، شاپر بنانا، تقسیم کرنا ، کباب بناکر دھوپ میں سکھانا، قیمہ بنانا وغیرہ وغیرہ۔ عیدالاضحیٰ کے دن ناشتہ کلیجی سے کرنا تو ایسی روایت تھی جسے ہم عید کے دن کا ایک فریضہ سمجھتے تھے۔
.
اور وہ عید ہی کیا جس پر بڑوں کی طرف سے ڈانٹ نہ پڑے۔ احمق! نئے کپڑوں پر خون کے دھبے لگوا لیے، دھونے تو ماں نے ہیں نا۔ ارے فلاں پڑوسی کو گوشت نہیں پہنچایا؟ عقل پتہ نہیں کب آئے گی؟ ہائے اللہ! اس قصائی نے کبابوں کا سارا ستیاناس کردیا اتنے موٹے موٹے کباب سوکھیں گے کیسے...!!
.
بعض گھروں میں عید سے ایک مہینہ پہلے تو بعض گھروں عید سے ایک ہفتہ پہلے بکرے کی آمد ہو جاتی تھی۔
سکول سے اتے ہی بغیر ہاتھ منہ دھوئے اور بغیر کھانا کھائے۔ باہر لے جانا۔ چرانا بھگانا دوسروں کے بکروں سے موازنہ.. اپنی نشانیاں لگانا۔۔ ساتھ ساتھ مہندی سے اپنے بھی ہاتھ لال کر لینا۔۔۔ پھر اس پر دوسرے کو کڑیاں کہہ کر چڑانا.. پورے زمانے کو خبر کرنا کہ ہم نے کوئ بکرا لے لیا
اب کہاں ہیں ایسی رونقیں۔۔۔۔۔
.
ویسے اس نسل کی موجیں ہیں کھانے میں جو مانگتے ہیں، انہیں وہ مل جاتا ہے۔ کھانے کی نئی ڈیشیز ان کی فرمائش کے مطابق تیار ہوتی ہیں، ہمارے پچپن میں جو کھانا بن کر سامنے آتا تھا مرچی، چٹنی دال اور کھٹہ وہی کھانا پڑتا تھا۔ کبھی نہ کردیں تو پہلے “چھتر” کھا کر پھر وہی کھاتے تھے۔ ہمارے زمانے میں برگر، پیزا، شوارما تو ایجاد ہی نہیں ہوا تھا، اس لئے کبھی کھانا نصیب نہ ہوا، البتہ انڈہ پراٹھا مہینے ایک بار کھانے مل جایا کرتا تھا، اب کی نسل کو روز ناشتے میں انڈہ بھی کھایا نہیں جاتا۔
.
آج کی نسل جو چیزیں عام دنوں میں کھاتی ہے ہمیں تو وہ عید پر بھی میسر نہیں ہوتی تھیں۔ہمارے دور میں، بمبئی مٹھائی، سون پاپڑی، سوڈے والی بوتل، برف والا گولا، برف کی تیلے والی آئیسکریم، گیسی غبارہ، ٹوکن والی وڈیو گیم اور شام میں ساری عیدی جو بیس روپے ہی ہوتی تھی ختم کرنے پر گھر سے مار۔ بس یہی ہماری عید ہوتی تھی۔
.
جب ہم چھوٹے تھے تو بڑوں کا حکم ماننے کا رواج تھا، اب بڑے ہوئے ہیں تو چھوٹوں کی بات سننے کا فیشن چل پڑا ہے۔ ہم بچے ہوکر محروم تھے اب بڑے ہوکر بےبس ہیں۔ تاریخ میں ہماری نسل جیسی مظلوم نسل بھی کوئی نہ ہوگی
.
ہماری عیدیں تو بس عیدگاہ تک محدود ہو کر رہ گئیں ہیں. احناف نے خواتین کو عید گاہ جانے سے روک کر شعار اسلام میں شامل ہونے سے محروم کر رکھا ہے، شاید کوئی غامدی جیسا بندہ آجائے اور آکر مردوں کو عیدگاہ جانے سے یہ کہہ کر منع کردے کہ ، حکم تو مستحب کا ہے، کیا فرق پڑتا ہے جائیں یا نہ جائیں..
.
آج جبکہ دنیا تاریخ کے المناک دور سے گزر رہی ہے، ایسے میں ہماری خوشیاں ماند سی پڑگئیں ہیں، نفسا نفسی رشتوں اور تعلق کی پہچان کسی کو نہیں... کوئی کسی کے ساتھ مخلص نہیں... سب پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں... یارا خود کو تبدیل کرو دوستی رشتوں تعلق کی قدر کرو، خوشیاں بانٹو آسانیاں بانٹو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچے کی بجائے گرتے ہوئے کو سہارہ دو چار دن کی زندگی بس اور کچھ نہیں..
.
ہمارے بچپن میں عید کے دن مہمانوں کا تانتا بنا ہوا رہتا تھا... ابھی تو یہ حالت ہے کہ دو چار قریبی رشتہ داروں کے سوا کوئی مہمان گھر کو بھٹک کر نہیں دیکھتا..!!
یارا عید کے دن مہمان نوازی اور میزبانی کا شرف خود بھی حاصل کریں اور دوسروں کو بھی یہ شرف حاصل کرنے دیں...
کیا عید کا دن عیدگاہ پر گلے ملنے کے سوا اور کچھ نہیں...!!
یا پھر عید اسکو کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر عید کی مبارکباد دیتے رہیں...؟؟
مجھے تو ان دوستوں اور رشتہ داروں پر بڑا غصہ آتا ہے جو مقام پر رہ کر بھی عید کی مبارکباد سوشل میڈیا کے ذریعہ دیتے ہیں..
.
آپ سے ہم سے اچھے خوبصورت بڑے بڑے پہلوان بڑے بڑے بدمعاش بڑی بڑی ہستیاں دنیا میں آئے سب کے سب خاک ہوگئے خواہشات پیسہ سب یہیں کا یہیں رہ جانا کیا پتہ کب زندگی کی شام ہو جائے موت بچہ جوان بوڑھا صحت مند کمزور بیمار کچھ نہیں دیکھتی، بس کسی وقت بھی آپ کے میرے دروازے پہ کھڑی نظر آئے گی پھر موقع نہیں ملے گا معافیوں کا.... نیکیوں کا... اسلیے دلوں سے حسد بغض کینہ کو نکال کر لوگوں کیلیے ایک اچھے انسان بنیں ان کو پیار دیں اچھا وقت گزاریں کم ازکم عید کو عید کی طرح انجوائے کریں، ہماری سال میں صرف دو ہی عیدیں ہیں،
.
کبھی بھول کر بھی یہ نہ کہنا کہ میری عید اچھی نہیں گزری... یا عید کا سارا دن بور گزرا دن۔ یا یہ کہ میری عید اداس گزری، ہم غریبوں و پریشان حالوں کی بھی کیا عید وغیرہ وغیرہ ۔ نہ نہ کبھی ایسی باتیں نہ کرنا ۔
یاد رکھیں ہم عید بھی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مناتے ہیں ۔ جب ہمارا رب کہتا ہے کہ اس دن خوشی مناو تو ہر ہر حال میں خوشی و پر جوش ہو کر عید منائیں۔
جتنے بھی ٹوٹے دل اور پریشان حال والی کفیت ہو ، چہرے پر مسکراہٹ رکھیں اور عید کے دن کا ہر لمحہ شکر گزاری و خوشی سے گزاریں۔
.
پچھلے دو تین سال سے تو ہماری عیدیں کورونا وباء کی نظر ہوگئیں، اس سال بھی ہماری عید... ہر طرف طوفانی بارش اور سیلاب کی نظر ہوگئی..
کم از کم اب تو آنے والے دنوں میں اگلی عیدین کے موقع پر تو یہ سب گلے شکوے بازو رکھ کر اپنوں سے مل کر خوشی کا اظہار کریں اور آپ کا عید کے دن شعار اسلام سمجھ کر پرجوش طریقے سے انجوائے کرنا بھی باعث ثواب ہوگا...
.
اس موضوع پر بہت کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے لیکن تحریر لمبی ہو جائے گی بس اتنا ہی کافی ہے...!
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
.
No comments:
Post a Comment