Pages

سیکولرزم کے علمبرداروں کا اصلی چہرہ

سیکولرزم کے علمبرداروں کا اصلی چہرہ



ایک بار گاندھی جی، ندوۃ العلماء کے بانی مولانا محمد علی مونگیری سے ملنے مونگیر گئے،
گاندھی نے اپنے مطالعہ سیرت کا حوالہ دے کر پیغمبر اسلام (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن حکیم کی تعریف و توصیف کی،
مولانا مونگیری گاندھی جی کی ان باتوں کو خاموشی سے سنتے رہے،
جب گاندھی جی اپنی بات کہہ چکے تو مولانا نے پوچھا
" مجھے تو آپ اسلام کی وہ بات بتائیں جو آپ کو پسند نہیں آئی اور حضور ﷺ کے اس پہلو سے آگاہ کیجئے جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا "
گاندھی جی اس سوال کے لیے تیار نہ تھے، کچھ چونکے اور فوراً بولے
" ایسا تو کوئی پہلو میری نظر میں نہیں آیا "
اس پر مولانا مونگیری نے سوال کیا!!
تو پھر آپ نے ابھی تک اسلام کیوں قبول نہیں کیا؟ "
گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا،
مولانا خفا ہوئے اور فرمایا :
"آپ نے جو کہا غلط کہا ہے، آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں، 
*صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لیے انہیں کی بولیاں بولتا ہے*
(صیاد یعنی، پرندوں اپنی جال پھنسانے والے شکاری) 
پہلا حوالہ : ( مسٹر احسان بی اے کی آپ بیتی، ص، 273)
دوسرا حوالہ : (خطبات احتشام الحق جلد دوم) 
سبق : غیر مسلم خواہ دین اسلام یا رسالت محمدی کی حقانیت کا کتنا ہی معترف ہو، جب تک وہ اسلام قبول نہ کرے اعتبار کے قابل نہیں، 
افسوس ہے کہ ہم مسلمان ایسے لوگوں کے دام فریب میں بہت جلد پھنس جاتے ہیں،
ہم مسلمان بھی کتنے سادہ لوح (بےوقوف) ہیں ، جو دوسروں (غیر مسلم دانشوروں) کی اسلام کے بارے میں تعریفیں پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر خوش ہوجاتے ہیں۔ کبھی برنارڈ شاہ کی! ، کبھی مائیکل ہارٹ کی! ، کبھی چکبست کی! ، کبھی جگن ناتھ آزاد کی!، کبھی کنور مہندر سنگھ بیدی کی!!۔ وغیرہ وغیرہ.. 
ہمارے دل میں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ، یہ لوگ اسلام کی اتنی تعریف تو کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ اسلام قبول کیوں نہیں کرتے....؟ 
ہم نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ انہیں اسلام کی دعوت کیسے دی جائے۔...!! 
اگر ایسے بڑے بڑے غیر مسلم دانشور اسلام قبول کرلیں تو انسانیت کا کس قدر بھلا ہوجائے ...!!
ایک مومن کےلیے غیر مسلم کے اسلام کے تعریفی کلمات کی کویی اہمیت نہیں ہونی چاہیے... جب اللہ رب العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اسلام کی سارے تعلیمات ہم تک پہنچا دیں ہیں تو اسکی تصدیق کے لیے ایک غیر مسلم کے الفاظ کوئی معنیٰ نہیں رکھتی.. ہاں ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ اس غیر مسلم کو اسلام کی دعوت کیسے کی جائے جو اسلامی تعلیمات کی تعریف تو کررہاہے لیکن اسلام قبول نہیں کررہاہے 
شاید کچھ غیر مسلم سماجی دباؤ کی وجہ سے بھی اپنا ایمان ظاہر نہیں کرتے ہوں گے ۔ اور کچھ مسلمانوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے منافقت کرتے ہیں بظاہر گاندھی کا معاملہ دوسرا ہی نظر آتا ھے، یہ بھی ایک غیر مسلم سیاسی سیکولر پارٹیوں کی چال ہے جو مسلمانوں کو پھنسانے کے لیے سیکولرزم کا چولا اوڑھ لیتے ہیں، جبکہ یہی سب سے بڑے منافق ہیں 
       تاریخ کی کتابوں میں ایسا ہی ایک اور واقعہ ملتا ہے کہ، سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔
سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پائوں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی ‏زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ 
تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بھہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور ‏میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ 
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟
سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے : 
*"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"* 
مسلمانوں کی صفوں میں موجود غیر مسلم سیکولر سیاسی پارٹیوں کے ہمنوا، ان دو اسباق کو سامنے رکھ کر سنجیدگی سے غور و فکر کریں تو بہت سی باتیں عیاں ہوجائیں گیں. 
یہ ایک تاریخی سچائی اور حقیقت ہےکہ دراصل سیکولرازم، لبرلزم اور جمہوریت کا وہ ہتھیار ہے جو مغرب نے ماضی میں اسلام اور مسلم مملکتوں کی بنیادیں ہلانے کےلیے استعمال کیا، اور اسی سیکولرزم کا لالی پاپ مسلمانوں ہاتھوں میں تھماکے مسلمانوں کو کمزور کیا.. 
شيخ عبد العزيز الراجحی حفظه الله : ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو ظاہراً مسلمان ہوتا تھا اور اندر سے کافر، اسے منافق کہتے تھے۔ پھر صحابہ کے دور میں ایسے شخص کو زندیق کہتے تھے۔ اور فی زمانہ ایسے شخص کو سیکولر کہتے ہیں۔“
سیکولرزم میں نیوٹرل ہونے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں لکھی جا سکتی ہیں، اگر لکھنے بیٹھوں تو مضمون طویل ہوجائے گا.. اس ان شارٹ اتنا کہنا ہے کہ یا تو سیکولر لوگ منافق ہیں یا پھر نیوٹرل نہیں۔
دنیا کی تقریباً ساری ڈکشنریز میں سیکولر ازم کا معنی لا دینیت ہے،  سیکولرازم  بنیاد ہی میٹیریل ازم ہے، اسکی تھیالوجی دینِ اسلام سے متصادم ہے، میٹیریل ازم یعنی ایک خدا کے تصور سے ہٹ کر اختیار کی گئی مادیت کی شاخ ہے، سیکولر ازم کی حقیقت یہی ہے اور ہمارے ہاں جو لوگ اسلام کے ساتھ سیکولرازم کو ملانا چاہتے ہیں وہ زیادتی کرتے ہیں، سیکولر ہونے کا حقیقی معنیٰ سب سے پہلے لا دین ہونا ہے، سیکولر ازم میں انسان مذہبی قید سے آزاد ہوتا ہے اور معاملات میں دینی اقدار کو لازم نہیں سمجھتا یعنی برملا اسکا اظہار بھی کرتا ہے
کچھ اسکالرز اسکی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیکولرزم دین کا ریاستی امور سے علیحدگی اور انسانوں کو انکے بنیادی حقوق فراہم کرنے کا نام ہے۔۔
اگرچہ اسکی آڑ میں سیکولرز کے ایسے کئی نظریات و افکار ہیں جو اسلام کی رو سے غلط ہیں لیکن سیکولرازم کو ازخود لا دینیت قرار دینے کی کوئی بنیاد نہیں۔
میرے خیال سے یہ تشریح صحیح نہیں، کیونکہ قرآن واضح ریاستی احکامات بیان کرتا ہے۔ اس لیے دین و ریاست کی جدائی ایک امر محال ہے۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ شریعت barbaric یا غیر مہذب تھی یا وہ احکامات اب لاگو کرنے کے قابل نہیں یا لوگ فیصلہ کریں گے ان کو لاگو کرنا ہے کہ نہیں، یہ صریح کفر ہے۔ اللہ کے احکامات کی تحقیر ہے یا تکذیب ہے۔ 
سیکولر افراد کا بنیادی نقطہ نظر یہی ہوتا ہے کہ ریاست دینی امور میں دخل اندازی نہیں کرے گی، ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرے گا،
کسی پر دین enforce نہیں کیا جائے گا اور سب کو یکساں انسانی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔۔
تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا دین اسلام میں یا اسلامی مملکت سب کو یکساں حقوق فراہم نہیں کئے جاتے....؟؟ 
تو پھر یہ سیکولرازم والی منافقت کیوں...؟؟  
اہل ہند کے اکابرین اسلام کہتے ہیں کہ مسلمان کو دارالکفر میں رہتے ہوئے بہت سے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلا ہندوستان کی صورت حال دیکھیے وہاں کے متدین قسم کے مسلمانوں کو دل و جان سے سیکولزم کی حمایت نہ چاہتے ہوئے بھی کرنی پڑتی ہے کہ  ان کے پاس ہندووتہ اور سیکولزم یہ دو ہی آپشن ہیں اور بلاشبہ کٹر ہندوانہ نظام سے سیکولزم بہرحال بہتر ہے اور اسے علمی زبان میں کہا جائے تو اس صورت کو *اھون البلیتین* کہا جاتا ہے۔ یعنی چھوٹے شیطان کا ساتھ دینا. 
ہمارے اکابرین اسلام بھی بار بار یہی کہتے آرہے ہیں کہ، سیکولرزم بھی اصل کے اعتبار سے باطل محض اور کفریہ نظام ہے۔ لیکن دارالکفر میں رہنے والے مسلمانوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی " کفریہ نظام " یعنی سیکولرزم ہی کی بقاء کے لئے جان و مال کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ ساتھ میں مسلمانوں کو اپنے مسلّمات میں سے کسی نہ کسی چیز پر سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ دارالکفر میں ایک مسلمان سو فیصد دین پر عمل پیرا ہوسکے. 
سیکولرازم کی اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد اب بات کرتے ہیں، جمہوریت کی...! 
مولانا محمد حسین الٰہ بادی نے سر سید احمد خاں سے کہا تھا کہ آپ لوگ جو کثرتِ رائے پر فیصلہ کرتے ہیں، اس کا حاصل یہ ہیکہ حماقت کی رائے پر فیصلہ کرتے ہو؛ کیونکہ قانونِ فطرت یہ ہیکہ دنیا میں عقلاء کم ہیں اور بے وقوف زیادہ، تو اس قاعدہ کی بناء پر کثرتِ رائے کا فیصلہ بیوقوفی کا فیصلہ ہوگا۔
(حوالہ: وعظ تقلیل الاخلاط مع الانام)
ہمارے جیسے ملکوں میں دو چوروں کے درمیان مقابلے کو جمہوریت کہتے ہیں، اور بےوقوفوں سے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرکے یا لالچی لوگوں کو ووٹ کے لیے رشوت دے کر حکومت حاصل کرنے والے ملک کو جمہوری ملک کہا جاتا ہے،
جمہوریت میں ووٹوں کی عددی اہمیت ہوتی ہے جبکہ اسلام انتخاب کا جو طریقہ دیتا ہے اس میں گنتی کی اہمیت نہیں بلکہ ووٹر کی حیثیت اور وزن کو دیکھا جاتا ہے۔
"جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘
.
جمہوریت کے معنی ہیں عوام کی حاکمیت۔ یعنی عوام خود حاکم ہیں۔ پھر اس تصور کو سیکولرازم کے ساتھ وابستہ کرنا پڑا جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کے معاملات میں کسی دین اور مذہب کی پابندی نہیں ہے۔ مذہب انسانوں کا ذاتی معاملہ ہے جو ان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے، 
جب یہ کہا جائے کہ عوام حاکم ہیں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی دوسری اتھارٹی کے پابند نہیں ہیں حالانکہ عوام کی اکثریت اپنے بنائے ہوئے نمائندوں کی اتھارٹی کے پابند ہوتے ہیں، پھر وہ حاکمیت کہاں رہی؟ 
ویسے ہندوستان میں اب جمہوریت باقی نہیں رہی اور نہ سیکولرازم باقی ہے، یہاں تو آمریت اپنے پنجے گاڑ رہی ہے جو اپنی منزل ہندو راشٹر کی طرف رواں دواں ہے... 
ویسے ہندو راشٹر کا نام سنتے ہی ہماری ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں... لیکن ڈرے نہیں، آمریت اور جمہوریت میں کچھ زیادہ فرق نہیں...، 
*آمریت یا مملکت میں حکمران عوام کو بولنے نہیں دیتا اور جمہوریت میں حکمران عوام کی سنتا نہیں...!* 
.
انہیں حالات کے تئیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی ہے کہ فتنوں کے دور میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہے ۔  جب ہم مسلمانوں کے اندر صورتحال کو تبدیل کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے تو کچھ دیر تک بیک فٹ پر جاکر سنجیدگی سے غورو فکر اور تدبیر کرنا ہی وقت کا سب اہم تقاضا ہے
کہتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔ مشکلات کا بھی اپنا ایک وقت معین ہے ۔ فتنوں کے سرد ہونے کی بھی اپنی میعاد مقرر ہے جو کبھی نہ کبھی اپنی موت خود مر جاتے ہیں ۔ آج کے حالات پر جو باریکی سے نظر رکھتے ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس طرح بہت شدت کے ساتھ نیو ورلڈ آرڈر کی بحث بہت تیزی کے ساتھ کبھی بھارت کی پارلیمنٹ میں وزیراعظم مودی کی زبان سے تو کبھی امریکی صدر جوبائیڈن اس کا تذکرہ کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں اور ہنری کسنجر کی ورلڈ آرڈر کے نام سے کتاب بھی آ چکی ہے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ جمہوریت اور سیکولر ازم کہیں نہ کہیں دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے اور اب اسے اشتہاروں کی ضرورت ہے ۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ کپھی کبھی خاموشی کے ساتھ ان فتنوں سے نکلنے کا حل بھی ڈھونڈھنا لازم ہے ۔ کبھی کبھی میدان جنگ میں ایک کمزور جماعت کا سپاہی اپنے سپہ سالار کے شہید ہونے کے بعد باقی سپاہیوں کو منظم کر کے بیک فٹ  پر یہ کہتے ہوۓ لے جاتا ہے کہ اب ہم پیچھے ہٹ رہے ہیں،  تاکہ ٹکراؤ سے گریز کرتے ہوۓ اپنی طاقت کو مستقبل کی معرکہ آرائی کیلئے محفوظ کیا جا سکے ۔ جنگ موتہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کا کردار یہی تھا ۔
حال کے تناظر میں افغانستان کے اندر دو سپر پاوروں کی شکست اسی لئے ہوئی کہ وہ وہاں کے حالات کو سمجھ نہیں سکے مگر انہوں نے بھی سمجھ داری یہ کی کہ  اس دلدل میں خود کو مکمل طور پر تباہ کرنے سے پہلے باہر نکال لیا اور خود امریکہ نے 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان پیچھے ہٹ گئے مگر آج وہ پھر غالب آگئے ہیں ۔ خیر قدرت نے دنیا میں ہر خطے کے لوگوں کو مختلف جغرافیائی صورتحال اور ذرائع سے نوازہ ہے اور کبھی کبھی حالات ایسے بھی بن جاتے ہیں کہ وقت کا گاندھی بھوک ہڑتال اور ڈنڈے سے ایک بڑے ملک کو آزاد کروا لیتا ہے مگر ہر بار اہنسا کی لاٹھی سے سانپ نہیں مرتا ۔ 
سوال حالات کو سمجھنے کا بھی ہے ۔جیسا کہ تبت کے بدھشٹ گاندھی کے اصولوں پر چلتے ہوۓ آج بھی بھٹک رہے ہیں لیکن اگر وہ ہتھیار بھی اٹھا لیتے تو بھی وہ چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ جس طرح افغانی عوام ایک زمانے سے اپنے مجاہدانہ کردار کیلئے مشہور ہیں افغانستان کو جغرافیائی نکتہ نظر سے خشکی کا برمودہ تکون اور سپر پاوروں کا قبرستان کہا جاتا ہے ۔ تبت کے بدھشٹ نہ تو جنگجو ہیں اور نہ ہی وہ مزاحمت سے اپنا علاقہ واپس لے سکتے ہیں ۔
ہم ہندوستان میں رہتے ہوئے، بی جے پی کا ساتھ نہیں دینا چاہتے ہیں، بی جے پی سے مصالحت نہیں کرنا چاہ رہے ہیں تو، کم سے کم سیاست کے میدان میں غیر مسلم سیکولر سیاسی پارٹیوں یا ہندو مسلم ٹکراؤ والی مسلم سیاسی جماعتوں کا ساتھ دئیے بغیر سامری کے سیاسی دریا میں اپنا کردار میلا نہ کر کے سیاست سے الگ ہٹ کر تجارت اور تعلیم کے ذریعے بھی اپنی اسلامی شناخت کو زندہ رکھ سکتے ہیں ۔
*دنیا کی سیاست میں کوئی حق ہے نہ کوئی باطل*
*سیاست کی ہر چال یہاں معرکہء سود و زیاں ہے*
ہندوستان میں مسلمان سیاسی طور پر ہر محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں ، جس ملک میں مسلمان اقلیت ہیں وہاں صرف اور صرف دعوتی کام کے ذریعہ ترقی کر سکتے ہیں، لیکن ہم یہاں بھی ناکام ہیں، دعوتی میدان چھوڑ کر اپنی سیاست کی بات کرنا ایسے ہی جیسے بغیر ایندھن کے گاڑی چلانے کی کوشش کی جائے ، یقین جانیں آپ بغیر دعوت کے ترقی نہیں کر سکتے، سارے انبیاء کی حالت اقلیت کی تھی اور انہوں نے دعوتی کام کے ذریعہ ترقی کے منازل طے کئے۔
انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں سے اگر دعوت کو حذف کردیا جائے، تو انکے مشن کی روح نکل جاتی ہے، کیونکہ ان کے مشن کی روح ہی دعوت تھی. 
لیکن ہمارے دینی مدارس جو خود کو نبوی مشن اور علوم کا وارث قرار دیتے ہیں، وہاں دعوت کی نہ کوئی تربیت ہے اور نا ہی بطور مشن اس کا کوئی وجود ہے، انہوں نے لفظ دعوت کو وسعت دے کر اپنے ہرکام کو دعوت قرار دے لیا ہے، لیکن ان کے یہاں دعوت اس حقیقی مصداق میں کوئی وجود نہیں رکھتی ہے جو انبیاء علیہم السلام نے زمینی سطح پر انجام دی ہے،
جس میں ہم نبیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بلا تفریق اللہ کے بندوں کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دیتے ہیں، اور اس راستے کی اذیتوں کو جھیلتے ہیں،،
کاش کہ...! ہمارے دینی مدارس کے فارغین، مدارس سے دعوتی تربیت لے کر فارغ ہوکر  یہاں کے سو کروڑ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں حکمت سے اپنی انتہائی کوششوں کو صرف کرتے....!!! 
لیکن نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ دینی مدارس اس روح سے یکسر خالی ہیں، بلکہ دور حاضر کی جن شخصیات نے اس حقیقی دعوت کے موضوع کو ٹچ کیا، یا تو وہ مدارس کے فارغ نہیں تھے یا اہل مدارس نے ان کی فکروں کو قبول نہیں کیا، مثلاً احمد دیدات، ڈاکٹر ذاکر نائیک، ریاض موسیٰ ملباری یوسف ایسٹیس، مولانا کلیم اللہ صدیقی ، عمر گوتم، سید عبداللہ طارق، .... اور دوسرے بہت سے داعیان اسلام وغیرہ وغیرہ... 
خلاصۂ کلام یہ کہ اہل مدارس کو اس جانب خصوصی طور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ان کی ساری مساعی حقیقی روح سے خالی ہی رہیں گی، خواہ آپ بزعم خویش کتنے بھی کام کر رہے ہوں، کیونکہ دعوت یعنی غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دی جائے یا کم از کم اپنے کردار اور حسن اخلاق کے ذریعے ان کو اسلام کی حقانیت سے  روشناس کروایا جائے، انبیاء کرام کے مشن کی اصل روح یہی ہے، جس کے بغیر کسی نبی سے نسبت ہی ادھوری ہے''، یاں یہ بھی یاد رکھیں کہ دعوت الی اللہ کی راہ میں ہمیں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا. مرنا تو ایک دن ہے ہی، اگر ہماری موت دعوت الی اللہ کی راہ آجائے تو ہم بےعمل مسلمانوں کے لیے اس سے اچھی موت اور کیا ہوگی. 
فرعون ہوکہ ہامان ہو ابو جہل ہو یا پھر ابو لہب، مودی ہو یا پھر یوگی آدتیہ ناتھ، موہن بھاگوت ہو اروند کیجروال، یا اور کوئی کٹر اسلام دشمن ہندو سنگھٹن ہو...، ان سب کے لیے ہدایت کی دعا کرنا اور ان کو اور ان کے ماننے والوں کو محبت، ہمدردی اور نرمی کے ساتھ اسلام کی دعوت دینا مزاج نبوت اور ایک اہم سنت ہے.
کیا ہم نے کبھی راتوں میں آٹھ کر ان کی ہدایت کے دعا کی ہے....؟
داعی اسلام ریاض موسٰی ملباری فرمایا کرتے تھے کہ کسی بھی غیر مسلم (کٹر ہندو) کو اسلام کی دعوت دینے سے پہلے کم سے کم دس راتوں تک رات کے آخری پہر میں آٹھ کر اسکی ہدایت کے لئے اللہ رب العزت سے پورے اخلاص کے ساتھ دعا مانگی جائے... اسکا اثر یہ ہوگا کہ وہ اگر اسلام قبول بھی نہ کرے تو وہ اسلام سے متاثر ضرور ہوگا یا کم سے کم اسکے دل میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کم ہوگی.
.
استاذ شیخ عاطف حفظہ اللہ کی  ایک بہترین نصیحت مجھے ہمیشہ رہ رہ کر یاد آتی ہے 
ایک درس میں ایک بندے نے ان سے سوال کیا :
"استاد جی۔۔۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ تمام راستے بند ہوچکے ہیں....!
تمام کوششیں ناکام ہو رہی ہے.....!
ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہو....! ملت کا درد اتنا ہے مگر کوئی راہ دکھائی نہ دیتی ہوں ....!
بس اس حوصلے کے ساتھ جیتا ہوں کہ اللہ بہترین فیصلے نازل فرمانے والا ہے۔
ایسے میں آپکی نصیحتوں کی اشد ضرورت ہے۔"
تو شیخ نے جواب دیا :
"منزل بھی انہیں اندھیروں میں ملے گی، پریشان نہ ہو پُتر۔۔۔
یہی صحیح رستہ ہے۔۔۔
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا۔۔۔۔۔
وہ قدم قدم پر بہک گئے..... 
اور اگر (ان راستوں پہ) کھو بھی گیا تو تجربہ بن جائے گا..... 
اور جیت گیا تو بھی جنگ پھر بھی لمبی ہے،  چلتا جا بیٹا ہار نہ مان"..... 
منزلیں کبھی کسی کے گھر کو جاکر دستک نہیں دیتیں پتر... ، 
راستوں پر ہی چلتے رہنے  سے راستے نکل آتے ہیں...
یاد رکھ پتر...، اللہ کے سچے راہی کو اللہ رب العزت "راستے" پہلے ہی بنادیتا ہے لیکن عطاء صرف بہترین "وقت" پر کرتا ہے. 
.
الداعی : محمد شعیب اکمل

.










1 comment:

Need Suggestions

Recent Updates