.
*جمہوریت یا ڈکٹیٹرشپ میں اقلیت، سیاست کے میدان میں اپنے بل پر کبھی پنپ نہیں سکتی*
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ، ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم ذات پات اور فرقہ کی سیاست کرو گے تو سو سال کیا ہزار سال بھی کامیاب نہیں ہوگے۔ انہیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہ کر اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
یعنی جمہوری ممالک میں جہاں ڈکٹیٹرشپ اپنے پنجے گاڑ رہی ہو... ان حالات میں اقلیت سیاسی میدان میں کبھی بھی اپنے دم پر پنپ نہیں سکتی...!
.
جب چناؤ کا موسم چل رہا ہو ، تو کسی سنجیدہ بات پر کان دھرنے کا موقع کسی کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اب جب کہ ماحول پرسکون ہوگیا ہے، اور سیاسی اکھاڑے کے سارے پہلوان تھک کر سستا رہے ہیں، تو میں نے سوچا میں بھی میری بات صاف صاف رکھ دوں، تا کہ آئندہ کبھی کسی کے کام آئے، میں لیکھک بہت چھوٹا ہوں، مگر میں اپنی قوم کو بڑے خطرہ سے ہمیشہ آگاہ کرتا رہا ہوں ویسے میری اس تحریر سے کسی کا اتفاق کرنا بھی ضروری نہیں ہے، کیونکہ میری باتیں دو ٹوک ہوتی ہیں، اس لیے آسانی سے کسی کے سمجھ میں نہیں آتی ہیں..
.
اب بات کرتے ہیں اترپردیش کے انتخابی نتائج کی، کچھ تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ ایم ائی ایم کو ہر جگہ بہت کم ووٹ ملے ہیں اس لیے بی جے پی کی جیت کا ذمہ دار اسے نہیں ماننا چاہیے، میرے خیال سے یہ بہت سطحی تجزیہ ہے۔ ایم ائی ایم کا قصور یہ نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں کے کچھ ووٹ کاٹ لیے، ایم ائی ایم کا قصور یہ ہے کہ اس نے ہندو مسلم سیاست کو ہوا دینے میں بی جے پی کے ساز میں ساز ملاکر بڑی تعداد میں ہندو ووٹوں کے بی جے پی کی طرف منتقل ہونے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
.
مجھے ایم ائی ایم کی ووٹ کاٹنے والی دلیل سے اتفاق نہیں ہے.. کیونکہ یو پی میں ایم ائی ایم کو ایک فیصد بھی ووٹ نہیں ملا۔ ایم ائی ایم کی اصل خرابی جس سے مجھے شدید اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن مہم میں مسلم پارٹی ایسا بیانیہ اور رویہ اختیار کرے جس سے بی جے پی کو ووٹ بینک بڑھانے میں مدد ملے۔
کسی بھی اقلیت کے لیے سب سے خطرناک صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اسے سیاسی طور پر بالکل الگ تھلگ کرکے بی جے پی کے مقابلے میں لاکر کھڑا کردیا جائے... قوم یا مذہب کے نام پر ایک پارٹی سیاسی قائم کرکے اور کچھ نمائندوں کی صورت میں ایک حصار میں قید کردینے کے بعد اکثریت کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکمران پارٹی کو نہ اس اقلیت کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کی ناراضگی اور احتجاج کی پرواہ ہوتی ہے۔
.
تلنگانہ میں ایم ائی ایم، ہمیشہ سے کسی نہ غیر مسلم سیاسی پارٹی کی حلیف رہی ہے۔ ایم ائی ایم تلنگانہ ریاست کے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ حیدرآباد کے مسلم اکثریتی علاقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ تلنگانہ میں اس کا سیاسی رویہ اپنے حصار میں قید ہوجانے کا نہیں بلکہ غیر مسلم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اشتراک والا عمل ہے، میں کسی بھی غیر مسلم سیاسی پارٹی کو سیکولر نہیں کہہ سکتا، کیونکہ کوئی بھی غیر مسلم سیاسی پارٹی مسلمانوں کی سچی خیرخواہ نہیں ہے، یہ صرف سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو چونا لگاتے بناتے رہتے ہیں، اس لیے میری نظر میں وہ سارے غیر مسلم سیاسی پارٹیاں منافقین کا ٹولہ جو مسلمانوں کو بےوقوف بناکر ان کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں
.
یوپی کے مسلمانوں نے پولنگ بوتھ پر اپنے ووٹ کے ذریعے ایم ائی ایم کو مسترد کردیا، یہ یو پی کے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔ لیکن مسلمانوں نے ایم ائ ایم کی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی، اس سے عام صورت حال بی جے پی کے حق میں ہوگئی۔
بی جے پی کے حق میں بڑی تعداد میں ہندو ووٹ میں پڑے۔ اس میں دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ درج ذیل دو عوامل بھی خاص طور سے کارفرما رہے۔ ایک طرف ایم ائی ایم کی بڑی ریلیاں، جذباتی تقریریں اور بیانات جو یہ تاثر دے رہے تھے کہ مسلم ووٹ ایم ائی ایم کے حق میں جارہا ہے، دوسری طرف بی جے پی کا یہ پروپیگنڈا کہ مسلمانوں کا ووٹ ہندوؤں کے خلاف ہے، اس لیے ہندوؤں کا ووٹ خالص ہندو پارٹی کو ملنا چاہیے جو صرف ہندو مفاد کی بات کرے۔ حالیہ الیکشن میں بیس اور اسّی کا نعرہ یہی ذہن بنانے کے لیے دیا گیا تھا۔
.
یوپی کے حالیہ انتخابات کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ، ہندو مسلم کی سیاست جہاں مسلمانوں کے لیے جتنا نقصان دہ ہے اتنا ہی اسکا فائدہ بی جے پی اٹھاتی ہے.. ہندو مسلم کی سیاست، بی جے پی کےلیے طاقت بخش غذا بلکہ زندہ رہنے کے لیے ضروری آکسیجن یہیں سے ملتا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ جو ہندو مسلم سیاست کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، وہ نام نہاد منافق سیکولر پارٹیوں کا رویہ ہے۔ خود کوغیر جانب دار اور انصاف پسند ثابت کرنے کے ہر امتحان میں وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ ان سے اس کی توقع تو فضول ہے کہ وہ مسلمانوں کےلیے راست کوئی فائدہ پہنچاسکیں، ہمارا موقف یہ ہے کہ مسلمان ایسا مضبوط سیاسی موقف اور اسمارٹ سیاسی رویہ اختیار کریں کہ اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی انھیں سیاسی ضعف اور سیاسی استحصال سے دوچار ہونا نہ پڑے۔ ان کی سیاسی پارٹی ہو یا نہ ہو سیاسی طاقت ضرور ہو، جوحق پسند اور انصاف کی علم بردار ہو۔
.
ہندوستان میں اس وقت جمہوریت ختم ہوچکی ہے، سیکولرازم کی بساط لپیٹی جارہی ہے، نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے مفاد میں اب کسی کام کی نہیں رہیں، ہندوستان میں اب ڈکٹیٹرشپ اپنے پنجے گاڑ رہی ہے اور اب وہ ہندو راشٹر کی طرف رواں دواں ہے، تو ان حالات میں نہ اقلیت اپنے دم پر پنپ سکتی ہے، اور نہ ہی ان حالات میں نام ونہاد مناق سیکولر پارٹیاں اقلیت کا کوئی بچاؤ کرسکتی ہیں اور نہ ہمیں وہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے، ایسے میں مسلمانوں کو کیا کرنا ہے، کیا ہم نے کبھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہے...؟
.
واضح رہے ،مجھے اویسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے..
لیکن
مجھے اختلاف ہے اسکی طرز سیاست سے..
مجھے اختلاف ہے اسکے بھڑکاؤ بھاشن سے.
مجھے اختلاف ہے اسکے طنزیہ جملوں سے..
مجھے اختلاف ہے اسکی ہندو مسلم سیاست سے..
مجھے اختلاف ہے اسکی بیان بازیوں سے..
کیوں کہ میں ان تمام باتوں کو ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے مضر سمجھتا ہوں....
ایک اور بات یہ ہےکہ، اویسی کو ماننے والے اپنے علاوہ سب کو غلط سمجھتے ہیں... ایسی اندھ بھکتی بھی مسلمانوں کو لے ڈوبےگی..
.
ایم آئی ایم کو اگر مسلمانوں کا ایک فیصد ووٹ بھی نہیں ملا ہے تو کمی ان کے تنظیمی ڈھانچے ہے، ان کی زمینی پکڑ اور اپنی بات سمجھانے میں ہے، کس جاتی کے لوگوں نے کس کو ووٹ دیا، کس نے ووٹ کاٹا، کس نے فائدہ پہونچایا، یہ سب فضول باتیں ہیں... یوگی جی کو جیتنا تھا سو انہوں نے بھاشن بازی پر زیادہ دھیان دیئے بغیر گراؤنڈ لیول پر مسلسل کام کرکے اپنے نام پر جیت درج کی ہے،
کامیابی کبھی بھی شارٹ کٹ سے نہیں ملتی ہے!
کامیابی کےلئے جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے!
لیکن ہم لوگ صرف زبانی جمع خرچ ہوابازی سے کامیابی چاہتے ہیں جو ناممکن ہے!
ملک میں انتخابات قریب آتے ہی مسلمان اپنی حصہ داری کی بات کرتے ہیں جبکہ پورے پانچ سال تک خواب و غفلت میں رہتے ہیں اور الیکشن سے دو ماہ قبل بیدار ہوتے ہیں.
یوگی جی نے ای وی ایم کو ٹیمپر نہیں بلکہ ہندوؤں کے مائنڈ کو ٹیمپر کیا ہوا ہے.. آپ صرف ای وی ایم پر قبضہ کی باتیں کرتے رہئیے، جبکہ بی جے پی نے ہندو عوام کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا ہے
.
سیاسی تجزیے آسمان پر بیٹھ نہیں کیئے جاتے ، اس کے لئے زمین پر آنا پڑتا ہے، اور زمین کے لئے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے، اور اس کی زمینی سچائی یہ ہے کہ عام ہندو ووٹر کا مائنڈ ٹیمپر ہوچکا ہے ، اس سچائی کو جتنی جلدی قبول کرلیا جائے، دل و دماغ کی شانتی کے لئے زیادہ بہتر ہے، ہار کا ٹھیکرا مسلمانوں یا ایم ائی ایم کے سر پر پھوڑنا، یا مسکان بی بی کی نعرہ تکبیر کو ذمہ دار قرار دینا ، حجاب کا مسٔلہ نہ ہوتا، کچھ مسلم لیڈروں کی جذباتی بیان بازی نہ ہوتی، تو بھی یوگی جی جیتتے، انہیں نہ ہاتھرس سے فرق پڑ سکتا تھا اور نہ ہی کسان آندولن کا، کسان آندولن کا بس اتنا ہی فائدہ ہوا ہے کہ آر ایس ایس کی سافٹ تحریک " *عام آدمی پارٹی* " نے کانگریس کے ہاتھ سے پنجاب بھی چھین لے گئی، قومی پارٹی اترپردیش جیسے ریاست میں صرف ایک یا دو سیٹ مشکل سے نکال پائی ہے، اس سے زیادہ اس کے لئے شرمناک بات کیا ہوگی۔
.
دیہی علاقے کے ہندؤں کے لئے چاہے وہ کسی بھی ذات کے ہوں نہ ہاتھرس مسٗلہ تھا، نہ کسان آندولن، نہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، نہ ذات پات، نہ پٹرول ڈیزل، وہ دال بھی نہین کھاتے، ان کے لئے کھانے والے تیل کی مہنگائی بھی معنی نہیں رکھتی، وہ سبزیاں نہیں خریدتے، ان کے لئے روٹی چٹنی کافی ہوتی، ان کے لئے بس اتنی خوشی کافی تھی کہ مسلمان اس حکومت سے پریشان ہیں اور ہم سر اٹھا کر چل سکتے ہیں، ورنہ دوسروں کی حکومت میں یہ کٹوے یا کٹ مُلّے (سنگھی ہم مسلمانوں کو اسی نام سے پکارتے ہیں) ہم پر راج کرتے تھے۔
.
اس بار کے الیکشن میں ہندو ووٹر بہت زیادہ سائلنٹ تھا، کچھ مسلمانوں سے تعلقات کی وجہ سے منہ پر کانگریسی اور سماج وادی تھے، لیکن اگر ذرا سا انہیں کریدا جاتا تو خاکی چڈی بڑی آسانی کے ساتھ دکھا دیتے تھے، کچھ ایسے تھے جو دن رات گالیاں دیتے تھے کہ یوگی اور مودی نے ہمیں ڈبو دیا، ہمارا دھندہ چوپٹ کردیا، مگر بٹن دباتے وقت سب تکلفیں بھول گئے، ان کے سامنے بس ایک ہی لیکشیہ رہا کہ اگر مسلمانوں کے غنڈہ راج سے ریاست کو بچانا ہے تو یوگی جی ضروری ہیں، خیر یہ سب ایک چکر ہے، اور ہم سب اس چکر میں پھنسے ہوئے لوگ، چکر سے نکلنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن جو لکھا ہے وہ کہاں ٹل سکتا ہے، ممکن ہے کہ کسی سورج کے اب ڈوبنے کا وقت ہو چکا ہو، اور نیا سورج اب اگنا ہی چاہتا ہو، ایک کا نیشنل لیول پر اٹھنا اور کریڈیبیلٹی کو ثابت کرنا ممکن ہے کسی کے زوال کا سنکیت ہو،
.
کانگریس نے جیسا پچھلے ستر سالوں میں جو بویا تھا، وہی کاٹ رہی ہے، اس کی منافقت نے ہی اسے یہ دن دکھایا ہے کہ آج ایک سیٹ نکالنا مشکل ہورہا ہے، باقی رہی چھوٹی پارٹیاں تو سب کو بے جی پی کھا چکی ہے، ہزاروں مخالفتوں، لوگوں کے طعنوں کے باوجود اس کا ووٹ شئیر بڑھ چکا ہے، اس وقت بی جے پی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر کھڑی ہوئی ہے، دو ہزار چوبیس بھی اس کی جھولی میں ہے، سارے چھوٹے بڑے منافق سیکولر سیاسی جماعتیں اور مسلمان مل کر بھی اس سے اقتدار چھین نہیں سکتے ہیں ۔
.
اب ان حالات میں ہم بی جے پی کو اچھوت کیوں بناتے ہیں....؟ ، بنا ووٹ اور سپورٹ کئے اپنے حصے داری کی امید کیوں کرتے ہیں ۔ بی جے ہی اسوقت ہندوستان کی سب سے مضبوط، طاقتور اور منظم سیاسی پارٹی بن چکی ہے ، اس کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس... لیکن ہم نے بی جے پی کو صرف ہندوؤں کی پارٹی بنا دیا ہے.. ہم اپنا حصہ پارٹی کے اندر لینے کے بجائے دوسروں کو دے دئیے ہیں، چلو آپ کے بقول یہ بھی مان لیتے ہیں کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست اور مسلمانوں کی دشمن پارٹی ہے...!
تو مجھے یہ بتاؤ کہ ہندوستان میں کونسی ایسی غیر مسلم سیاسی پارٹی ہے جو مسلمانوں کی سچی خیر خواہ ہے... ؟
.
بی جے پی اور دوسری غیر مسلم سیاسی جماعتوں میں صرف اتنا ہے کہ بی جے پی سامنے سے وار کرتی ہے اور دوسری نام و نہاد سیکولر منافق پارٹیاں پیجھے سے وار کرتی ہیں... ایسے منافقین سے ہاتھ ملانے سے بہتر یہ ہے کہ کھلے دشمن سے سمجھوتا کرلیا جائے...
کیا کہتے ہیں آپ لوگ....؟ ڈر کے آگے جیت ہے ، آپ جو کام بی جے پی سے سمجھوتا کرکے کرواسکتے ہیں وہ کام دوسری پارٹیوں سے گٹھبندن کرکے بھی کبھی نہیں کرنے دیں گے...
.
اندھا راشٹر واد وہ نشہ بن چکا ہے جو سارے غم بھلا دیتا ہے. مہنگائی، ڈیزل پیٹرول کی بڑھتی قیمتیں، کورونا دور میں لچر ہیلتھ سسٹم، گنگا میں تیرتی لاشیں، آوارہ جانوروں سے برباد ہوتی فصلیں لوگ یہ سارا غم دھرم اور راشٹر واد کے خوبصورت نعروں میں بھول گئے. فی الحال حزب مخالف کے پاس اس نشے کا کوئی توڑ نہیں ہے
جب تک دھرم کی راجنیت ہوگی بی جے پی کا ہارنا بہت مشکل ہے، آپ بی جے پی کےخلاف مسلمان جتنا بولیں گے انکی دھرم کی راجنیت اتنی ہی مظبوط ہوگی، مسلمانوں کو چاہیے کہ بی جے پی کی مخالفت کرنا چھوڑیں، انہیں ہرانے کی ذمےداری انہیں کے لوگوں پر چھوڑ دیں ,
.
اگر مودی حکومت سے آپ خاٸف ہیں تو چھوٹی چھوٹی چنگاریوں کو ہوا دے کر غیر مسلموں سے ٹکرانا چھوڑ دیں. نہ جانے روزانہ ایسی کتنی چنگاریاں پھڑ پڑھاتی ہیں اور خود اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی لیکن بعض دفع کچھ ناسمجھ جذباتی لوگ ان چنگاریوں کو ہوا دے کر زندگی بخش دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت ثواب کا کام کیا ہے۔
اور اگر آپ کو مودی حکومت کے ساتھ چلنا ہے تو خود کو، اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بناٸیے، معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط بنٸیے۔ اس کے علاوہ آپ کچھ بھی کریں گے، ہارتے رہیں گے۔
.
اویسی صاحب مسلمانوں کے سچے خیرخواہ ہے یا نہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے.. البتہ جذباتی مسلمانوں کے جذبات سے کهیلنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے.
پارلیمنٹ اور ٹی وی ڈبیٹ میں لچهےدار بات کرنے کا فن بهی ہے، لیکن یہ سب لاحاصل سی شئے ہے.
آجتک بی جےپی حکومت نے مسلم مخالف جتنے متنازعہ قوانیں پارلیمنٹ پاس کئے اس پر سوائے گلا پهاڑنے کے اور کچهہ نہیں کیا.
اپنا اختلاف درج کرانے کا سب سے کم درجے والا حربہ جو ہوتا ہے وہ ہے پرامن مظاہرہ جسکی اجازت آئین میں بهی ہے لیکن ماہر قانون بیرسٹر صاحب سڑکوں پر اترکر کوئی مظاہرہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے،، آج تک کسی مظاہرے کی دهمکی تک نہ دے سکے.
.
اویسی حامیوں سے ایک سوال ہے... ؟
اتحاد المسلمین فرقہ پرست پارٹی ہے یا سیکولر؟
اگر یہ فرقہ پرست پارٹی ہے تو اس کو حق نہیں کہ کسی اور فرقہ پرست پارٹی پر تنقید کرے اور اگر سیکولر پارٹی ہے تو اس کو حق نہیں کہ کسی اور سیکولر پارٹی پر تنقید کرے، اس سے پہلے وہ خود ثابت کرے کہ اس میں کتنا سیکولرازم ہے، اور کتنی فرقہ پرستی؟
.
امریکہ، یورپ، لندن اور روس کے حکمران اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں، اسکے باوجود مسلمان ان سے ٹکرائے بغیر، سیاست میں مذہبی جنونیت کا تڑکا لگائے بغیر... وہاں کیسے رہ رہے ہیں؟، ان سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے... کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کو آنے والے دنوں میں ہندو راشٹر میں کیسے رہنا ہے ابھی سے سیکھ لیں تو بہتر رہے گا... اسکے علاوہ مسلمانوں کے پاس کوئی آپشن نہیں بچاہے...
.
عرب اور ترک حکمران بھی حکمت عملی کے تحت اپنے دوستانہ اسرائیل بڑھارہے ہیں، جبکہ اسرائیل مسلمانوں اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے... کیوں نہ ہم مسلمانانِ ہند بھی اسی حکمت علمی کے تحت بی جے پی سے سمجھوتہ کرلیں..
پچھلے ہفتے اسرائیل کے صدر کا دورہ ترکی ہوا تھا، جہاں طبیب اردگان اسے گارڈ آف آنر پیش کیا...
اگر اسی اسرائیلی صدر کا دورہ سعودی عرب ہوا ہوتا.....!!!
اور بن سلمان نے اس طرح استقبال کرکے گارڈ آف آنر پیش کیا ہوتا..!!
تو سعودی عرب حکام سے سوء ظن رکھنے والے، اب تک سوشل میڈیا پر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ لیے ہوتے۔۔..!!
.
اگر کوئی بندہ سانپوں کے درمیان رہ کر ان سانپوں سے یہ امید کرتا ہے کہ وہ اسے ڈسیں گے نہیں گا تو وہ سب سے بڑا بےقوف ہے، ہمیں ان سانپوں سے ڈرنا نہیں چاہیے اور سانپوں سے چھیڑ خانی بھی نہیں کرنی چاہئے... بلکہ ہمیں ان کے ساتھ رہتے ہوئے ان سے اپنی حفاظت کے لئے تدابیر کرنی چاہیے، یا پھر ان سانپوں کو مانوس کرکے ان میں موجود زہر کی تھیلیاں نکال لینی چاہئے..
.
ہندوستان میں رہتے ہوئے غیر مسلموں (بالخصوص بی جے پی) والوں سے ہمیشہ ٹکرانے یا انہیں دھتکارنے کی بجائے انہیں خود سے قریب کرتے ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے اپنے قول و عمل سے ثابت کرتے کہ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اس کی نظر میں بحیثیت انسان سب برابر ہیں ہمارا مذہب مظلوموں کی حمایت کرنا سکھاتا ہے،وہ سماج کے دبے کچلے اور محکوم و مقہور طبقات کو اوپر اٹھاتا اور انہیں صحیح انسانی مقام عطا کرتا ہے
مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس ملک میں یہ ہمارا بنیادی کام تھا جس سے ہم نے مجرمانہ غفلت برتی اور آج جو کچھ ہورہاہے وہ اسی غفلت کی سزا ہے، یاد رہے کہ یہ کوئی جزوقتی کام نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل عمل ہے اور ہمیں اس کے لئے تیار ہونا پڑےگا
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
.
*یہ بات سچ ہےکہ سحر تک نہ رہیں ہم شاید*
*مگر یہ طے ہے کہ سحر ہو کے رہے گی..!*
.
الداعی : محمد شعیب اکمل
.
No comments:
Post a Comment